مرمر کے ہجر میں جینا کمال ہے

آئے بھی وہ ٗگئے بھی وہ ٗ ختم فسانہ ہوگیا۔کراچی میں سورج دس روزتک آگ برساتا رہا ٗزمین حدت اگلتی رہی ٗحبس میں لوگوں کا دم گھٹتا رہا ٗپیاس اور افلاس کے ماروں کی لاشیں گرتی رہیں ٗ اسپتالوں اور فلاحی اداروں کے سرد خانے لاشوں سے بھرتے چلتے گئے ٗقبرستانوں میں لاشوں کی تدفین کیلئے قبروں کی اجرت کے نام پر بولیاں لگتی رہیں ٗقبرستان تنگ پڑ گئے تومرنے والوں کولاوارثوں کی طرح اجتماعی قبروں میں اتارا جاتا رہا ٗاس ناگہانی آفت میں ذمہ دار ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے ٗحکومتیںخراٹے لیتی رہیں ٗحکمراں افطار عشائیوں کے مزے لوٹتے رہے ۔ کسی کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میںان بھوکوں پیاسوں کی مدد کو آتا اور کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ آگے بڑھ کرکسی میت کو کاندھا دیتا۔ موت کے اس بھیانک موسم میں کوئی کراچی والوں کی مدد کو نہیں آیا ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف بھی دس روز بعد شمسی طوفان تھمنے پرکراچی آئے اور کسی بیمار کی عیادت کئے بغیر ٗ کسی مستحق کو کوئی امداد یاکسی متوفی کے وارث کو دھیلادئیے بغیر اسلام آباد چلے گئے۔انتظار ِ یار میں مستغرق آنکھوں میں سیسہ بھر گیا۔ وزیراعظم کے اس بے فیض دورہ نے لوگوں میں مایوسیاں پھیلا دی ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف نے وزیراعظم کی کراچی والوںسے اس بے اعتنائی کو آڑے ہاتھوں لیا اورسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ سنا تھا کہ وزیراعظم کراچی آئینگے تو کراچی کو میٹرو کا تحفہ دینگے۔ اس پیشگی اطلاع پر کراچی کے مختلف حلقوں میں بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں اور کہا گیا کہ کراچی پانی اور بجلی کیلئے بلبلا رہا ہے ٗلوگ گرمی اور پیاس کے ہاتھوں زندہ درگورہو رہے ہیں اور ایسے میں وزیراعظم کو میٹرو بس کی پڑی ہے۔ بعض ہمدردمشیروں نے وزیراعظم کو اس ماحول میں میٹرو بس منصوبے کے اعلان سے باز رکھا۔ وزیراعظم کراچی آئے تو انہوں نے میٹرو بس کا ااعلان تو نہیں کیا لیکن پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کیلئے بھی کوئی بڑی نوید نہیں سنائی ٗالبتہ سند ھ حکومت کے کراچی کیلئے پانی کے مجوزہ منصوبے ’’کے- فور‘‘ کیلئے دس ارب روپے کے ہدیہ کے اعلان پر ہی صاد کیااور ہدایت کی کہ اس منصوبے کو دو سال میں مکمل کیا جائے۔یہ دس ارب روپے کب ملیں گے ٗ ملیں گے بھی سہی کہ نہیں ٗ خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب سندھ وفاق سے شاکی ہے کہ اسے این ایف سی ایوارڈ سے مقررہ حصہ نہیں دیا جارہا۔ اس بار وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے انکے سامنے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان مسائل کے حل اور رابطے کے نظام کو موثر بنانے کیلئے وفاقی وزرا پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے ۔ اس کمیٹی میں عبدالقادر بلوچ ٗ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف شامل ہونگے یہ کمیٹی سندھ میں لوڈشیڈنگ ٗبجلی کے واجبات کے تنازع ٗ مالی امور ٗ فنڈز کے اجرا ٗ وفاقی حکومت کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں جاری میگا پروجیکٹس کی تکمیل اور دیگر مسائل کے حوالے سے سندھ حکومت سے رابطے میں رہے گی اور باہمی بات چیت کے ذریعہ مسائل کو حل کیا جائے گا ۔ یہ کمیٹی کیا کریگی ٗ اس کا اندازہ سب کو ہے ٗملک میں کمیٹیاں اور کمیشن تو بنتے ہی اس لئے ہیں کہ مسائل اسکی بھول بھلیوں میں دبا دئیے جائیں۔ بدھ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں کراچی میں گرمی کے باعث پیدا ہونیوالی صورتحال کے حوالے سے منعقدہ اس اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ ملکی تاریخ میں گرمی کی لہر سے غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ۔ غفلت کا مظاہرہ کرنیوالے اداروں کیخلاف کڑا احتساب کیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ اس حوالے سے فوری تحقیقات کرائیں اور جامع رپورٹ مرتب کرکے اس میں ملوث افراد اور اداروں کا تعین کیا جائے تاکہ ان کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جا سکے ۔ ‘‘ وزیر اعظم کے دورہ کراچی سے بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں۔ لوگوں کو امید تھی کہ میاں نواز شریف کراچی آئینگے تو پانی اور بجلی کے بحران کے ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے ٗ گرمی کے ستائے عوام کی شنوائی ہوگی اور جن کے مرے ہیں ان سے اظہار ہمدردی کرینگے اور ان کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے امداد کا اعلان کرینگے ٗجواسپتالوں میں بیمار پڑے ہیں انکی خیریت دریافت کرینگے اور انہیں دلاسہ دینگے۔ ساری امیدیں خاک میں مل گئیں ٗ پہلے تو وزیراعظم میاں نواز شریف کراچی پہنچے ہی خاصی تاخیر سے کہ جب تک پندرہ سو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ٗپھر یہ کہ ہمدردی کے چند بولوں کو ترستے غریب لوگ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی راہیں تکتے رہے لیکن وزیراعظم انہیں درشن دئیے بغیر پہلو بچا کر نکل گئے۔ وزیراعظم کی ’’کر لیں گے ٗ دیکھ لیں گے ٗنہیں چھوڑینگے ٗہو جائیگا‘‘ والی پالیسی نے لوگوں کو بڑا مایوس کردیا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا وزیراعظم کراچی نہ ہی آتے۔اگر خدانخواستہ ان مرنے والوں میں کوئی ایک بھی کسی بڑے گھر کا فرد ہوتا ٗڈیفنس ٗ کلفٹن کا رہائشی ہوتا ٗکسی سیاسی رہنما کا بیٹا بھانجا ٗ کسی ایم این اے کا عزیز یا کسی سینیٹر کا رشتے دار تو یقیناً حکومتی حلقوں میں کہرام مچ جاتا اور کراچی کو آفت زدہ علاقہ قرار دیدیا جاتا ٗوزیراعظم ساری مصروفیات پس پشت ڈال کر کراچی دوڑے چلے آتے اور غمزدہ خاندان سے ضرور ہمدردی کرتے اور اسے قومی سانحہ قرار دیتے ٗ عوام کا کیا ہے عوام تو پیدا ہی مرنے کیلئے ہوئے ہیں ٗ اس بار پندرہ سو مر گئے ٗ پندرہ ہزار اور مر جائیں ٗ کسی حکومت یا حکمراں کو کیا فرق پڑتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...