افغانستان کے صدر کے نام ۔ ایک مکالمہ

افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کی’ حامد کرزئی پالیسی ‘پر چلنے کی جو روش اپنائی ہے اُنکی اِس روش سے افغانستان میں امن قائم کرنے کی اُنکی خواہش کیسے پوری ہوگی ؟ یہ سوال بہت اہم ہے، چونکہ حامد کرزئی اپنے طویل اقتدار کے زمانے میں ہمیشہ بھارت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے، اُنہوں نے ہر اُس شخص کو اپنے قریب رکھا جو بھارت نوازی اور پاکستان مخالف خیالات رکھتا تھا، حامد کرزئی کے بعد اپنی زندگی کا بیشتر زیادہ حصہ وطن سے باہر گزارنے والے اور کسی حد تک افغان ثقافتی قدروں کی شناخت کو اپنے لئے حرزجاں بنانے والے ‘ افغانستان میں قرار واقعی امن قائم کرنے کے جذبات واحساسات لیئے عالمی شہرت ِ یافتہ ماہر تعلیم اور اقتصادی امور میں کافی وشافی دسترس رکھنے والے ڈاکٹر اشرف غنی نے بحیثیت صدر ِ افغانستان کا عہد سنبھالا تو پاکستان میں بھی اِس خوشگوار تبدیلی ٗ ِ اقتدار کا بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا پاکستان میں امیّدوں کی کئی کرنیں پھوٹنے لگیں شائد اب دونوں ملکوں کے درمیان بہتر ‘ پُراعتماداور پختہ یقین پر استوار تعلقات ضرور قائم ہوجائینگے گز شتہ دوماہ کے دوران دنیا نے یہ دیکھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ سطحی پیمانے پر انٹیلی جنس شیئرنگ کا تاریخی معاہدہ ہوا جس معاہدے کے بعد یہ امیدپیدا ہوچکی تھی کہ اب دونوں ملک افغانستان اور پاکستان جن کی طویل ترین اور دشوار گزار پہاڑی درّوں پر مشتمل سرحدوں میں دہشت گردوں کی جو محفوظ پناہ گاہیں وہ اب باآسانی تباہ کی جاسکیں گی اور دنیا بھر سے یہاں اِن علاقوں میں چھپے دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ پائیں گے یقینا اِس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی یہ بات ہم کھلی نیک نیتی صاف دل سے کہہ رہے ہیں کہ حامد کرزئی کی بہ نسبت ڈاکٹر اشرف غنی یقینا دل سے چاہتے ہیں کہ افغانستان انتظامیہ میں آئے روز کی بڑھتی ہوئی بھارتی مداخلت اب سرے سے ختم ہوجائے؟ افغانستان اپنے فیصلے خود کرسکے اپنی سلامتی اور اپنے امن کی سمتوں کا انتخاب خود کرسکے بھارت اور امریکا نے جس بد نیتی‘ جس چالاکی اور بد فطرتی کے ساتھ ڈاکٹر اشرف غنی کے گرد اپنا حصار آجکل مزید سخت سے سخت کردیا ہے۔ یقینا مسٹر غنی نے بالکل صحیح تجزیہ کیا تھا پاکستان اور افغانستان دونوں میں سے کسی ایک کو حامد کرزئی کی طرف سے اُٹھائے جانیوالے تباہی کے 8 سال اور خطرناک سیاسی وسفارتی رجحانات کے برے اثرات کا کبھی نہ کبھی تو خاتمہ کر نا ہی تھا، پاک اور افغانستا ن دونوں ممالک پڑوسی ہونے کے ناطے سول‘ فوجی اور اقتصادی باہم ترقی میں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کر سکتے ؟ اِسی بنیادی نکتہ کی اہم سوچ نے دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان سیکورٹی معاہدے کی حالیہ دستخطوں کیلئے‘ مستقل امن کیلئے ‘ دہشت گردی کیخلاف جدوجہد جاری رکھنے کیلئے اپنے عزم کی نشاندہی ہی تو کی تھی دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اِس مثبت و تاریخی پیش رفت سے نئی دہلی میں مفاداتی خطرے کے الارم بجنا شروع ہوگئے اور نئی دہلی فوراً سیکورٹی معلومات میں دوطرفہ تبادلے کے اِس اہم معاہدے کی روح پر اثر انداز ہونے کے عزم سے لیس افغانستان میں اپنے ’سیاسی اثاثوں‘ کو متحرک کرنے پر یکدم فوراً حرکت میں آگئی افغان رکن پارلیمنٹس اور بعض بھارتی نواز حامی عناصر کو تیار کیا گیا اپنے پرانے دوستانہ تعلقات کی دہائیاں دی جانی لگیں جنہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر سیاسی وسفارتی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی اپنی کوششیں شروع کردیں ‘پاک افغان تعلقات علاقائی سیاست میں ہمیشہ ایک بنیادی نکتہ رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی تنازعہ نہ رہے دونوں ملک ایک دوسرے پر بقائے ِباہمی کے سیاسی و سفارتی تعلقات کے ساتھ مکمل بھروسہ کریں اعتماد کریں‘ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حامد کرزئی کے بعدنئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی داغ بیل ضرور ڈالی ‘ مگرجوں جوں وقت گزرتا گیا افغان اسٹیبلیشمنٹ نے (جو مکمل نہیں تو تقریباً 50-60% بھارتی نواز ضرور ہے) اشرف غنی کو بھی حامد کرزئی کے رنگ میں رنگنا شروع کردیا کچھ لوگوں کی رائے ہے اور خدا کرے کہ اُنکے یہ انداز ے غلط ثابت ہوں کہ ’ افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کے ساتھ ہنی مون پیریڈاب’ شکوک کے سائے‘ میں چلاگیا ہے؟ پاکستان کو لکھے گئے افغان صدر کے ایک حالیہ خط کو اِس کا عکاس کہا جارہا ہے جو ’انٹیلی جنس شیئرنگ معاہدے‘ کو دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان آپس کی نئی غلط فہمیوں کی موجودگی پر دلالت رکھتا ہے، یوں لگتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ کیوں نہ کہا جائے کہ جن بھارت نواز یا امریکا نواز طاقتوں نے آج صدر اشرف غنی کو اِس مقام پر لاکھڑا کیا ہے یہ انتہائی غیر متوقع مقام دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان کی ہمدردانہ باہمی روائتی اور ریاستی دوستی کے مقابلے میں اُن غیر ریاستی دہشتگردی کی قوتوں کی سبقت کی علامت ہے جو افغان صدر کو یہ یقین دلانے میں اپنا رول بھرپور منفی روال ادا کررہے ہیں کہ’ پاکستانی طالبان کی افغانستان میں موجودکمین گاہوں کا مکمل خاتمہ اگر کسی صورت میں بھی ہو خاتمہ جائے تو پاکستان اپنے علاقوں میں موجود غیر ملکی خطرناک دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے اپنے وعدے سے پھر جائے؟ ایک ایٹمی پڑوسی ملک ہے جس ملک (پاکستان ) کی ڈیورنڈ لائن پر بنے ہوئے گھر دونوں ملکوں کی سرحدوںمیں منقسم ہیں وہ کبھی وعدہ خلاف نہیں ہوسکتا پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار رشتے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی کیلئے فائدہ مند ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ قائم کیا جائے ۔

ای پیپر دی نیشن