پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور دھاندلی کے شور کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے، جتنی پاکستان میں خود جمہوریت پرانی ہے۔ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ہوں، ریفرنڈم ہو یا پھر سینیٹ اور صدر کے انتخاب کا عمل ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں انتخاب ہارنے والا آسانی کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کرکے جیتنے والے کے گلے میں ہار پہنادے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی انتخابات میں جھرلو پھرنے کا الزام لگایا گیا تو کبھی کہا گیا کہ انتخابات میں ”فرشتوں“ نے ووٹ ڈالے اور ڈلوائے، کبھی انتخابات کو انجینئرڈ قرار دیا گیا تو کبھی انتخابات میں عوامی مینڈیٹ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا گیا، لیکن 2013ءکے انتخابات میں چنا و¿ ہار کر تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تو اس دفعہ سب کو ہی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے دھاندلی کا الزام ریٹرننگ افسران سے شروع ہوا، پھر اُس وقت کے چیف جسٹس پر بھی کیچڑ اچھالا گیا،الیکشن کمیشن پر بکنے کا الزام لگایا گیا اور تو اور اُس وقت کے آرمی چیف کو بھی معاف نہ کیا گیا۔پی ٹی آئی نے اپنے الزامات سے عجب تماشا لگادیا اور پھر الزامات کی سیاست کے اِس کھیل میں وہ پیپلز پارٹی بھی شامل ہوگئی جو ناصرف ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں برسراقتدار تھی بلکہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر بھی خود اُسی نے کیا تھا۔ ان جماعتوں نے الزام عائد کیا کہ 2013میں ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے کچھ ارکان نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کا ساتھ دیا تھا، لیکن حزب مخالف کی جماعتیں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے دوران کوئی ثبوت پیش نہ کرسکیں۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ دھاندلی کا اِس قدر شور اُٹھا کہ عمران خان نے چار ماہ سے زائد عرصہ تک اسلام آباد کے قلب میں طویل ترین دھرنا دیے رکھا۔ لیکن دوسرا اور بالکل درست طریقہ آئینی طریقہ استعمال کرنے کا راستہ تھا اوریہ راستہ پارلیمنٹ سے ہوکر گزرتا تھا لیکن یہ راستہ اختیار کرتے کرتے اپوزیشن کی جماعتوں نے مجموعی طور پر اور تحریک انصاف نے خصوصی طورپر بہت وقت لگادیا۔ اپوزیشن پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیا تو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے لکھے گئے خط پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آئینی اصلاحات کیلئے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کردی، جس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو نمائندگی دی گئی۔ جس کے بعد کمیٹی میں شامل 33 قانون سازوں نے پوری جانفشانی سے کام کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات کے بل کا وہ مسودہ تیار کیا جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد 22ویں ترمیم کے ذریعے اب آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے ترامیم کے حوالے سے سفارشات طلب کی گئی تو 1200 سے زائد تجاویز موصول ہوئیں، جنہیں 4000 صفحات پر تحریر کیا گیا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے 18 اجلاسوں اور ذیلی کمیٹی کے 57 اجلاسوں میں اِن سفارشات اور تجاویز کا جائزہ لیا گیا، جس کے بعد پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نے متفقہ طور پر سفارشات منظور کیں ، جو بعد میں پارلیمنٹ سے بھی متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔ کمیٹی میں جمہوریت کا اصل حسن اُس وقت دیکھنے کو ملا جب پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور پولنگ کیلئے الیکٹرانک مشین کے استعمال کے حوالے سے قائم کی گئی ذیلی کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔حکومت کا یہ عمل پارلیمنٹ کے ارکان بالخصوص اپنی سب سے بڑی ناقد جماعت پی ٹی آئی پر جمہوری اعتماد کا مظہر ہی تو تھا۔
آئینی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کے لیے سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ 22ویں ترمیمی بل میں آئین کے 8 آرٹیکلز میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی، 22 آئینی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کے علاوہ اب کم سے کم 20 سالہ تجربہ کا حامل سرکاری افسر یا ٹیکنوکریٹ بھی چیف الیکشن کمشنر مقرر ہو سکے گا۔اس طرح الیکشن کمیشن کے ارکان کے لیے صرف ہائی کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے اور کمیشن کا رکن کوئی بھی سینئر سرکاری افسر یا ٹیکنو کریٹ مقرر کیا جا سکے گا۔اس آئینی ترمیم کے تحت پاکستا ن کے چیف جسٹس سے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کا اختیار بھی واپس لے لیاگیا ہے اور اب الیکشن کمیشن کا سینئر رکن چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں ادا کرسکے گا۔ترمیم کے تحت اب الیکشن کمیشن کے 2 ارکان 5 سال جبکہ 2 ارکان ڈھائی سال کے لیے منتخب ہوں گے۔ آئین میں 22 ویں ترمیم کے بل میں چیف الیکشن کمشنر کی عمر کی حد 68 برس اور رکن کی عمر65 سال مقرر کی گئی ہے۔ اصلاحات کے تحت الیکشن کمیشن کوناصرف مالی خودمختاری اور خلاف قانون کام کرنے والے انتخابی عملے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کے اختیار کو قانونی تحفظ بھی فراہم کردیا گیا ہے بلکہ انتخابی اصلاحات کیلئے کی جانے والی 22ویں ترمیم ایک جامع انتخابی اصلاحاتی پیکیج ہے، جس پر عمل کرکے دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام!!دھاندلی کے الزامات کی تین سالہ رٹ ، دھرنوں اور احتجاج کا اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی سے موازنہ کیا جائے تو احتجاج اور دھرنوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قانون سازی زیادہ مفید (پروڈکٹو) معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کام ایک سو ستائیس دن کے دھرنے کا شور، ہلا گلا اور ”جنون“ نہ دکھا سکا، وہ کام انتخابی اصلاحاتی کمیٹی اور ذیلی کمیٹیوں کے 75 اجلاسوں میں اطمینان اور ”سکون“ سے کی جانے والی بات نے کردکھایا۔بالکل اِسی طرح پانامہ لیکس والے معاملے پر بھی جتنے مرضی دھرنے دے دیے جائیں، جتنے مرضی الزامات لگالیے جائیں اور جتنا مرضی شور مچالیا جائے، اگر معاملہ حل کرنا ہے تو سڑکوں کی بجائے بالآخر پارلیمنٹ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔