چیف ادارہ شماریات نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں رواں برس مہنگائی کی شرح گزشتہ 46 برسوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے گزشتہ ماہ جون میں ہونے والی مہنگائی سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی کی نسبت جون 2016 میں مہنگائی کی شرح 0.64 فیصد رہی جب کہ گزشتہ سال جون کی نسبت رواں سال مہنگائی کی شرح 3.19 فیصد بڑھ گئی ہے۔ ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ٹماٹر کی قیمتوں میں 61 فیصد، آلو 45 فیصد جب کہ انڈوں کی قیمت میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تازہ سبزیوں کی قیمت میں 5.9 جب کہ تازہ فروٹ کی قیمتوں میں 2.51 فیصد اضافہ ہوا، بیسن کی قیمت میں 2.39 فیصد اضافہ ہوا۔ مذکورہ رپورٹ ادارہ شماریات کی جاری کر دہ ہے اس نے اپنی رپورٹ میں خود ہی مہنگائی کا تناسب بتایا ہے لیکن ساتھ ہی 46سال کی کم ترین مہنگائی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ نہ جانے ادارہ شماریات کا مہنگائی جانچنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ ہمارا دعویٰ نہیں بلکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک سال قبل مصطفی ٹاﺅن میں 3مرلے کا مکان 25سے 28لاکھ میں مل جاتا تھا لیکن اب اسی سوسائٹی میں 3مرلہ مکان کی قیمت 35لاکھ ہے۔ اسی طرح مرغزار کالونی میں5مرلہ کا مکان 50سے60لاکھ کے درمیان ملتا تھا جو اب 70لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد آپ اشیاءخوردونوش کی قیمتوں کی طرف آ جائیں، زیادہ دور کا موازنہ کرنے کی بجائے ہم صرف رمضان المبارک سے قبل کی قیمتوں سے اگر موازنہ کریں تو ٹماٹر رمضان سے قبل 10روپے کلو فروخت ہوتا رہا ہے جو اب 60روپے میں ”بک“ رہا ہے آلوکی قیمت بھی کی قیمت بھی 20روپے سے 40 پر آ گئی ہے جبکہ وزیر خوراک کہ رہے ہیں کہ آلو کی قیمت کو 30روپے تک لائیں گے، تب لائیں گے جب عوام تاجروں کے ہاتھوں لٹ جائیں گے۔ اسی طرح آپ آٹو رکشہ‘ کار، موٹر سائیکل اور غریب کی سواری سائیکل کی قیمتوں کی بات کریں تو وہ بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ حکومت چند رمضان بازاروں پر اربوں روپے لگا کر سکون سے بیٹھ جاتی ہے جبکہ وزراءکے دوروں میں کروڑوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں، اگر یہ ہی پیسہ مارکیٹ میں لگائیں تو اس سے نہ صرف مہنگائی میں کمی واقع ہو گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ اور سکون کا سانس لے سکیں گے نہ جانے ہمارے حکمران مہنگائی کسے تصور کرتے ہیں؟ مہنگائی سے مراد ہے اشیاءکی قیمتوں کا آمدن کے مقابلے میں بڑھ جانا۔ وطن عزیز پاکستان میں اس وقت مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے اور اشیاءخوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اور عوام الناس اس میں اپنے اپنے زاویہ فکر و سوچ کے لحاظ سے تبصرے کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملک عزیز میں معاشی بگاڑ (افراط زر) کی اصل اور سب سے بڑی وجہ سودی نظام کا اپنانا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ناجائز بلیک مارکیٹنگ بھی اشیاءکی قیمتوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بین الاقوامی دبا¶ بھی افراط زر کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ طاقتور بین الاقوامی اثرات کی وجہ سے کمزور معیشتوں میں اشیاءکی قیمتیں متوازن نہیں رہ پاتیں جس سے معاشرتی طور پر بے چینی پھیلتی ہے اور مہنگائی بڑھتی چلی جاتی ہے، ملکی غیر ملکی قرضہ جات و امداد پر دیئے جانے والے سود ودیگر شرائط کے باعث زیادہ حکومتی آمدن کے حصول کے باعث بھی قیمتوں کی سطح غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔ غیر تعلیم یافتہ کم تعلیم یافتہ معاشرتی ماحول کے باعث کے بھی لالچی رویوں کی وجہ بہت اہم ہے کیونکہ ایسے میں غیر اخلاقی طرز عمل فروغ پاتا ہے اور احساس مروت جیسے عناصر کی بیخ کنی ہو جاتی ہے، غیر اسلامی کاروباری‘ تجارتی و صنعتی طریقے اقتصادی سرگرمیوں کو غیر مستحکم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاًنام نہاد رسموں و تہواروں پر کئے جانے والے اخراجات‘ نام نہاد نمود و نمائش پر کیا جانے والا اصراف غیر ضروری درآمدات‘ پیسے کے لالچ میں کی جانے والی غیر ضروری برآمدات‘ کم غذائی اثرات کی حاصل خوراک کی پیداوار جس کے باعث یا تو خوراک میں زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں یا پھر دوائیوںکے ذریعے اس غذائی قلت کو دور کرنے کے لئے اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کا مطمع نظر کبھی بھی اقتصادی استحکام نہیں رہا بلکہ ذاتی مفادات کا حصول بنیادی ضروریات اور معاشی مسائل کو نظر انداز کرتے چلے آنے کے باعث آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ معاشرتی و معاشی بے چینی عروج کو پہنچ چکی ہے۔ اگر ملک میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی روش اپنا لی جائے تو ہر قسم کی بدامنی‘ انتشار‘ بگاڑ و استحصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ مہنگائی کا تناسب کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ملک بھر میں پانچ سے نو سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ بچوں کو پرائمری کی سطح پر تعلیم دلوانے کا سب سے زیادہ رحجان پنجاب میں ہے جہاں 93 فیصد بچے سکول جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سے نو سال کے عمر کے سکول جانے والے بچوں کا تناسب 65 فیصد ہے۔ جس ملک میں خام ملکی پیداوار کاصرف دو فیصد تعلیم پر خرچ ہو اس میں مہنگائی کے تناسب کی کمی کے دعوے کھوکھلے دعوے ہی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت کا شعبہ میں بھی سہولتوں کا فقدان ہے۔ پاکستان میں صحت عامہ پر خام ملکی پیدوار کا محض چار فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67 ہزار سات سو 69 ہے۔ یعنی ایک ہزار99 افراد کے علاج معالجے کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ جبکہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں موجود وسائل اس قدر محدود ہیں کہ 1647 افراد کے علاج کے لیے ایک بستر ہے۔ حکومت نے جس طرح غربت کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے یومیہ دو ڈالر سے کم کمانے والے کو خطِ غربت سے نیچے شمارکیا ہے ایسے ہی مہنگائی کم جانچنے کا پیمانہ بھی انہوں کو” نیا “نکال لیا ہے۔
”مہنگائی کی 46 سالہ کم ترین سطح“
Jul 04, 2016