سانحہ احمد پور شرقیہ دو سو سے زیادہ زندہ جاوید انسانوں کو موت کی دہلیز سے دوسری طرف پہنچا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف دہشتگردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک کواس کے حال پر چھوڑکر عمرے اور سیرو سیاحت کیلئے روانہ ہوگئے تھے،وہ لندن کی یخ بستہ ہواﺅں کو چھوڑ کر اس سانحہ کے باعث واپس چلے آئے،ان کا معروضی حالات میں تین چار ہفتے کے دورے کا فیصلہ جتنا غلط تھا اتنا ہی احمد پورشرقیہ سانحہ پر واپسی کا فیصلہ درست تھا۔سانحہ احمد پور شرقیہ کی تفصیلات میں جائیں تو درد،الم اور کرب سے کلیجہ منہ کو آتاہے۔پیار پورہ غم ودرد پورہ بن گیا۔ سانحے کے متاثرین کے چہروں پر اداسی اور افسردگی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے۔ علاقے میں آہ و بکا ماتم اور کہرام ہنوز جاری ہے۔ دل زخموں سے چور ہیں۔ علاقے میں آج بھی جنازے اٹھنے کا سلسلہ جاری رہا۔آج اس سانحہ کو ہفتہ گزر کر عشرہ ہونے کو ہے،زخموں کی تاب نہ لاکر ہر روز اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ سانحہ کو دوسرے روز125 افراد کی تدفین کی گئی تھی۔قیامت کا سامنا کرنے والے گاﺅں میں نوجوان اس تعداد میں جاں بحق اور زخمی ہوئے کہ قبروں کی تیاری بھی ممکن نہ رہی۔اس لئے مختلف محکموں کے 300 ملازمین کو بلایا گیا جو اب تک قبریں تیار کررہے ہیں۔جاںبحق ہونے والوں کی تعداد دوسو سے تجاوزکرگئی ،ساری زندگی کے روگ میں مبتلا ہونے والے بھی اتنے ہی ہیں۔ق لیگ کے ایک مقامی رہنما کا دعویٰ ہے کہ اس سانحہ میں چار سو افراد دار فانی سے کوچ کرگئے۔ سانحے میں جاں بحق ہونیوالوں کے گھروں پر تعزیت کرنیوالوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کئی ایسے گھرانے بھی ہیںجن کاایک فرد تعزیت کیلئے آنیوالوں کے تعزیتی الفاظ سننے کیلئے بھی نہیں بچا۔کہا جارہا ہے کہ آئل ٹینکر کے الٹنے اور پیٹرول اکٹھا کرنے کے لیے ہجوم جمع ہونے،جب کہ موقع پر آگ لگنے کے سبب یہ قیامت برپا ہوئی۔یہ حقیقت ہے کہ ٹینکر الٹا،اس میں آگ لگی اور انسانوں سمیت اردگرد ہر چیز بھسم ہوگئی۔لوگ بلاشبہ پٹرول جمع کررہے تھے ۔ان میں کئی موٹر سائیکلوں پر آئے ،کئی نے گاڑیاں روک کر یہی کام کیا۔مگر وہاں سات آٹھ سو افراد، سارے کے سارے پٹرول ہی جمع نہیں کررہے تھے،کئی وہاں سے گزر رہے تھے،بہت سے وہاں آکر صورتحال دیکھ رہے تھے ۔کچھ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے۔ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کو سگریٹ سلگا کر ماچس پھینکتے دکھایا گیا ہے۔ادھر اس نے تیلی نیچے پھینکی، اُدھر ویڈیو بند ہوگئی۔شاید ویڈیو بنانے والا فیس بک پر لائیو چلا رہا تھا۔جس نے ماچس جلائی اس کے وہم وگمان میں ایسے سانحہ کا وقوع پذیر ہونانہیں ہوگا۔بہرحال آگ آگ ہے،وہ نہیں دیکھتی کون کس مقصد کیلئے آیا،اس کا کام اپنی زد میں آنیوالی ہر چیز کو بھسم کردینا ہوتا ہے سو اس نے کردیا۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے دنیا میں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک میںاس طرح کے واقعات میں عموماً عوام موقع سے فیول جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ کسی بھی وجہ کے سبب آگ لگ جانے کے باعث وہ اور دیگر افراداس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔اسی طرح کا واقعہ گزشتہ برس 17نومبر، 2016 کو موزمبیق میں پیش آیا جب 93افراد آگ کی لپیٹ میں آکر ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ افغانستان میں بھی 8مئی، 2016کو کم از کم 73افراد ہلاک ہوئے تھے۔16ستمبر، 2015 کو جنوبی سوڈان میں بھی آئل ٹینکر الٹنے کے سبب جب عوام کی بڑی تعداد پیٹرول جمع کررہی تھی تو آگ لگ جانے کے باعث 203افراد ہلاک ، جب کہ 150زخمی ہوگئے تھے۔11جنوری، 2015کو پاکستان میں غلط سمت سے آنے والے آئل ٹینکر سے کوچ کے ٹکراجانے کے سبب 62افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔12جولائی 2012کو نائیجیریا میں آئل ٹینکر کے الٹنے اور پیٹرول جمع کرنے کے سبب حادثے میں 104افراد ہلاک جب کہ 50زخمی ہوئے تھے یہ حادثہ ملک کے شمالی حصے میں پیش آیا تھا۔2جولائی ، 2010 میں کانگو میں پیٹرول ٹینکر میں دھماکے کے سبب 292افراد ہلاک ہوئے ۔9اکتوبر 2009 میں نائیجیریا میں پیٹرول ٹینکر میں دھماکے کے باعث 70 سے 80افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔اسی طرح 26مارچ 2007 میں نایئجیریا میں ہی آئل ٹینکر کو حادثہ پیش آیا اور عوام نے موقع سے پیٹرول جمع کرنا شروع کردیا تھا اس موقع پر بھی آگ لگ جانے کے سبب 93افراد ہلاک ہوگئے ۔اس سانحہ سے یقیناً بچا جاسکتا تھا ۔کیسے بچا جاسکتا تھا ؟اس پر بات کرنے سے قبل معاصر کی ایک چشم کشا رپورٹ پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ ”سانحہ احمدپورشرقیہ کے حوالے سے جہاں انتظامی غفلت اوربروقت اقدامات نہ اٹھانے کوزیربحث لایا جارہا ہے وہاں اس چیزپربھی سوچنے اورغورکرنےکی ضرورت ہے کہ آیا اس حادثہ کااصل سبب ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتی لالچ اور لوٹ مار کا کلچر تو نہیں؟یا پھر اس علاقے کے غربت کے حالات اس واقعہ کاسبب ہیں؟غورکرنےکی ضرورت ہے کہ آخرایسی کیالالچ یاضرورت تھی کہ بستی کے سینکڑوں لوگ زمین پرگرے تیل کواکٹھاکرنے کیلئے بالٹیوں اورڈبوں کیساتھ جائے وقوعہ پرپہنچ گئے اورصرف یہی نہیں کہ غریب بستی کے لوگ ہی موقع پرآئے بلکہ موٹروے پرکاروں اورموٹرسائیکلو ں پرسفرکرنےوالے افرادبھی لالچ کے تحت جائے وقوعہ پر رک گئے اوراپنی کاروں اور موٹر سائیکلوں سے بوتلیں اورڈبے نکال کرزمین پرگرے تیل کواکٹھاکرنے لگے اوربھول گئے کہ وہ بارودکے اوپرکھڑے ہیں اورچھوٹی سی غفلت بہت بڑاسانحہ کاسبب بن سکتی ہے لیکن لالچ اورلوٹ مار کلچراور سوچ سے آنکھوں پرپٹی بندھ گئی اورپھر وہی ہواجس کاڈرتھا، اس پرحکمرانوں سمیت تمام مکتبہ فکرکے لوگوں کوسوچنے کی ضرورت ہے“۔ہم اور ہمارے سیاسی راہبرو اکابرین نہ صرف تاریخ اور ایسے واقعات سبق حاصل کرنے پر تیار نہیں بلکہ خود پر بیتی قیامت سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔جو کچھ اقتدار سے باہر رہ دو بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ ترین قیادت پر گزری اگر اس سے انہوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو وہی کچھ نہ کرتے جس کی پاداش میں انہیں جیلوں اور جلاوطنیوں کا سامنا کرنا پڑا۔دوبارہ اقتدار میں آکر بھی قبلہ درست نہیں ہوا۔احمد پور شرقیہ سانحہ سے اگلے روز حیدر آباد کے قریب ایک ٹینکر کا حادثہ پیش آیا تو جہاں بھی تیل لوٹنے والوں کا ایک ہجوم در آیا،شکر ہے کہ یہ مہم جوئی سانحہ میں تبدیل نہیں ہوئی۔ہم دیکھا کہ جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتاہے توسیکورٹی ادارے جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی سب سے پہلے متاثرہ ایریا کو کورڈن آف کرتے ہیں،لوگوں کو دور دور کردیا جاتا ہے۔ کسی کو قریب نہیں آنے دیا جاتاجبکہ ٹریفک حادثات کے مواقع پر ایسی احتیاط نہیں کی جاتی۔ٹینکر الٹنے کے گھنٹے بعد آگ لگی اس دوران متعلقہ اداروں کے پاس ایریا کو کور کرنے کا بہت وقت تھا مگر کسی کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔اسے متعلقہ ادارے اگر یہ کام کرلیتے تو قوم ایک بڑے دکھ درد سے محفوظ رہتی اور اس کی عید کی خوشیاں غارت نہ ہوتیں۔مستقبل میں ایسے حادثات سے لوگوں میں اپنی جان کے تحفظ کا شعور بیدار کرکے بچا جاسکتا ہے۔اداروں کو بھی ایسے معاملات کو دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے جیسے اقدامات کرنے کی پلاننگ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔