قارئین! ہر روز میرے فون پر حکم کا تانتا لگا رہتا ہے کہ موجودہ منتشر صورتحال پر کالم لکھو۔ ہم پاکستانیوں کا آخر کیا قصور ہے؟ کہ لمحہ بھر کو سکون میسر نہیں ہے۔ مگر کالم کیسے لکھوں؟ کالم تو وہ لکھے جس کا اپنا دل و دماغ خود سکون سے کام کررہے ہوں، اطمینانِ قلب کی وجہ سے حواس یکجا ہوں جبکہ وطن عزیز کے حالات پچھلے کئی سال سے لمحہ موجود تک جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اس گھٹن میں تو بمشکل سانس ہی لیا جارہاہے بلکہ سانس لینا بھی دوبھر ہورہا ہے۔ کالم لکھنے کے لئے قلم کا پہاڑ دو انگلیوں پر کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟ لگتا ہے پوری قوم بلڈ پریشر کی مریض ہوچکی ہے، سب کا سکونِ قلب غارت ہوچکا ہے، ہر آنے والا لمحہ قوم کے لئے نئی سے نئی آزمائش بلکہ سزا لے کر نمودار ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قائد و اقبال کے پاکستان پر رحم فرمائے، دلوں کے اندر کی اس صورتحال کا عکس باہر کے ماحول میں کچھ زیادہ ہی گوڑھا ہے۔ حالات ایسے ہوں تو کوئی کالم کیسے لکھے؟ سچ پر ہر طرف سے پابندی ہے، زبان بندی ہے، فرائض منصبی ادا کرنے پر صحافی تشدد کا شکار، ہر طبقہ برادری دم بخود، انصاف نیم جان، ٹی وی چینل تباہ، اس پر خبریں ”خونم خون“، اخبارات جاں بہ لب، ضمیر کے قیدیوں سے جیلیں لبالب بھری ہیں، خوفِ خدا سے عاری پولیس والے بے گناہوں کو سمیٹ سمیٹ کر اپنی گاڑیوں میں ڈال کر لے جاتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ لگتا ہے اٹھارہ کروڑ عوام میں سے صرف کچھ لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں، کچھ دفتروں میں بمشکل کام کررہے ہیں، باقی ساری قوم سڑکوں پر کھڑی مسلسل احتجاج کررہی ہے یا سرراہ سڑکوں پر بیٹھی ہے۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں آخر ان کے مسائل کیوں حل نہیں کئے جاتے؟ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے آپس کے جھگڑوں میں وطن عزیز کا یا اہل وطن کا کیا قصور ہے؟ اُن کا چین کیوں تباہ کیا جارہا ہے؟ کوئی ایک دن، کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں گزرتا ہے جب اُن کو سکون میسر ہو، ہر شہر میں ہر روز لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوتی ہیں، اپنے پیاروں کو رونے والے اُن کے ساتھ حواس باختہ بیٹھے ہوتے ہیں، ہر لاش کے پس منظر میں ایک ایک پورا خاندان تباہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا تو پھر سیاست کیوں؟ حکمرانی کیسی؟ کیا لاشوں پر حکومت کرنا یا سیاست کرنا خودغرضی کی انتہا نہیں ہے؟
قارئین! دردناک حقیقت دراصل یہ ہے کہ ہمارے تمام ”بڑوں“ میں صبر و تحمل، مروت و محبت اور وطن پرستی کا کوئی جذبہ ہی باقی نہیں رہا۔ لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کئے ہوئے ہمیں اپنے اِس جنت نظیر ٹکڑے پاکستان کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ اقتدار کی ہوس، دولت کی ہوس، رئیسوں کی چھینا جھپٹی اور خودغرضی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جس کے آگے کوئی دوسری انتہا ہی باقی نہیں رہی۔ ہمارے لئے تو صرف امریکہ جیسی سپرپاور کی دشمنی ہی بہت تھی، چہ جائیکہ ہم خود ہی ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی بن گئے ہیں۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے دنیا میں کوئی مرد کا بچہ مسلمان کو نہیں مار سکتا، صرف مسلمان ہی مسلمان کو مار سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی اس حکمت عملی میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکا ہے۔ اب مسلمانوں ہی سے مسلمانوں کو ختم کروا رہا ہے، وہ ہمیں دہشت گرد اور انتہاپسند کے دو اعلیٰ ترین ٹائٹل عطا کرکے خود چین کی بانسری بجا رہا ہے، اب ہم صرف اپنے اِن دو اعزازات کو جواز عطا کرنے، ان کا دفاع کرنے اور اپنی کرسیاں بچانے کے لئے اس کے سامنے سر بہ خم کھڑے ہیں۔ کون نہیں جانتا اُس کی اِسی پالیسی کے تحت افغانستان کا کیا حشر ہو چکا ہے، وزیرستان افغانستان بن چکا ہے، ہماری کئی سرسبز وادیاں سرخ وادی اموات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ہمارا مسلمان ملک عراق اپنے عراقیوں ہی کے خون میں غرق کردیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر اور انڈیا میں اُسی کے حکم سے مسلم کشی ہورہی ہے۔ اب پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے۔ رہی سہی کسر ہم خود پوری کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان ہوش و حواس سے عاری ہوکر آپس میں لڑرہے ہیں۔ خدارا اپنے گھر کو گھر سمجھیں، پاکستان کو بچائیں، اپنوں کو اپنا سمجھیں، اپنا خون خود اپنی ہی پاک سرزمین پر نہ گرائیں۔ ہم اپنی روایات، اپنی تاریخ کے بالکل برعکس چل رہے ہیں، ہم جس رب کائنات کی مخلوق اور ختم المرسلین کی اُمت ہیں ہم مکمل طور پر اُن کے احکامات سے روگردانی کررہے ہیں۔ لگتا ہے اب سوچنے، سمجھنے اور شعور کے تمام تر مراحل سے ہم گزر چکے ہیں، وقت دعا آچکا ہے اور یہ بہت کڑا، بڑا اور آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ آیئے مل کر دعا کریں کہ رب العالمین اپنے پیارے محبوب، رحمت العالمین کے صدقے میں ہمارے گناہ معاف فرما دے، ہمارے قلوب پر لگی ہوئی خودغرضی کی مہریں مٹا دے، ہمیں ہماری ”اَنا“ کے چنگل سے نکال لے، خودغرضیوں سے بچائے، ہمیں صراط المستقیم پر چلائے اور اپنے وطن عزیز پر جان قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ بے بس، فاقہ زدہ و بے قصور پاکستانیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)
پاکستان اور پاکستانیوں کا کیا قصور ہے؟
Jul 04, 2017