پی پی پی کا اساسی انتخابی منشور 1970ءکی تاریخ کی بے مثال دستاویز ہے۔ اس منشور کو لکھنے والوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اور حالات کی صدا پر غور کرکے پاکستانی قوم کو ایک انقلابی اور نظریاتی پروگرام دیا۔ منشور دینے والا انمول اور نایاب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت میں پہلے ہی عوام کے دلوں میں گھر کرچکا تھا۔ 1970ءکے انتخابی منشور میں پہلی بار محروم اور بے زبان طبقات مزدور، کسان، محنت کش عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس انقلابی منشور کے بنیادی اُصول روٹی کپڑا اور مکان، طبقاتی جدوجہد، استحصال کا خاتمہ، زرعی اصلاحات، مزدور اصلاحات، اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام تھے۔ 1965ءسے 1970ءتک عوام میں پڑھنے کا شوق بہت تھا لہذا پی پی پی کے اساسی منشور کی لاکھوں کاپیاں تقسیم ہوئیں اور ان کو شوق و اُمید کے ساتھ پڑھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور انقلابی منشور نے پی پی پی کو فتح سے ہمکنار کیا۔ پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے پی پی پی کے منشور سے فیض حاصل کیا اور سیاستدان بھٹو صاحب کی تقریریں سن کر ولولہ انگیز عوامی خطاب کا فن سیکھتے رہے۔
پارٹی منشور کی تیاری اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے پی پی پی نے ہمیشہ لیڈ کیا ہے۔ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد برق رفتاری سے منشور پر عمل کیا۔ چین کے وزیراعظم چواین لائی نے ان کو احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے کا
مشورہ دیا۔ پی پی پی کا 1977ءکا منشور بھی 1970ءکا تسلسل تھا۔ ہر چند کہ 1970ءکے انتخابات میں ضمانتیں ضبط کرانے والے جاگیردار سیاستدان 1977ءکے انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے البتہ پی پی پی اپنے اساسی منشور کے ساتھ وابستہ رہی۔ اگر بھٹو صاحب کے خلاف عالمی سازش کامیاب نہ ہوتی اور ان کو شب خون مار کر اقتدار سے محروم نہ کیا جاتا تو بھٹو صاحب پارٹی منشور پر مکمل عملدرآمد کردیتے اور پاکستان میں عوامی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوجاتیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سیاسی بصیرت اور عالمی امور کا ادراک رکھنے والی لیڈر تھیں وہ پی پی پی کے اساسی منشور کے ساتھ جڑی رہیں البتہ انہوں نے 1988ءکے انتخابی منشور کو بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالا اور پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بیس ماہ کے اندر قابل ذکر حد تک پارٹی منشور پر عمل بھی کیا۔ پی پی پی نے ہمیشہ غریب کمزور اور محروم طبقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے پر توجہ دی۔ مزدور، کسان، خواتین اور نوجوان ہمیشہ پی پی پی حکومت کی ترجیح رہے جبکہ مسلم لیگ(ن) نے ہمیشہ دکھانے اور کھانے والے منصوبے موٹرویز اور میٹروتعمیر کیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی منشور کی تیاری میں ذاتی دلچسپی لیتی تھیں۔ راقم 1993ءمیں پی پی پی سینٹرل سیکرٹریٹ لاہور کا انچارج تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا نامزد کردہ پالیسی پلاننگ گروپ قومی امور پر پالیسی پیپرز تیار کرتا تھا۔ اس گروپ میں اکانومسٹ افتخار الحق، دانشور حنیف رامے، سابق آئی جی پولیس ایم اے کے چوہدری، ماہر تعلیم شہناز، وزیر علی، پرویز صالح اور راقم شامل تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس گروپ کو انتخابات 1993ءکے لیے منشور تیار کرنے کا ٹاسک دیا جو مختلف شعبوں کے ماہرین کی مشاورت سے تیار کیا گیا۔ برادرم افتخار الحق نے کلیدی کردار ادا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بریفنگ سیشن میں پارٹی منشور کو حتمی شکل دینے کے لیے تجاویز دیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں پارٹی منشور محض ایک روایت کے طور پر ہی پیش کرتی ہیں۔ ووٹ دینے والے بھی منشور کا مطالعہ نہیں کرتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے 2018ءکے انتخابات کے لیے اپنی سیاسی زندگی کا پہلا منشور دیا ہے جس سے ان کے وژن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بلاشک بلاول بھٹو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور بھٹو شہید کی سیاسی روایت کے امین ہیں۔ 2018ءکا منشور بھٹو ازم کی نظریاتی اور انقلابی فکر کا تسلسل ہے۔ 1970ءکے انتخابی منشور کی طرح پی پی پی کا 2018ءکا انتخابی منشور بھی انقلابی اور نظریاتی ہے جسے انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ عوامی انقلاب کے ذریعے ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ پی پی پی نے اپنے نئے منشور میں قوم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اسے اقتدار ملا تو پارٹی بھوک مٹاﺅ پروگرام شروع کرے گی۔ کسانوں کے معیار زندگی میں اضافہ کرنے کے لیے کسان کارڈ جاری کیا جائے گا۔ پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔
2018ءکے منشور کے مطابق پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ریاستی اداروں میں ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا کی جائے گی۔ ملاوٹ والی سینسر شدہ جمہوریت قبول نہیں کی جائے گی۔ طلبہ یونین بحال کی جائیں گی۔ قومی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سبسڈی دی جائے گی۔ لونگ ویج کا پیکج متعارف کرایا جائے گا جس کے بعد کسی شہری کو ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہیں رہے گی۔ دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ قرضوں کی بجائے ٹریڈ اور سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے گی۔ صاف پانی، معیاری تعلیم و صحت کی سہولتیں پی پی پی کی ترجیح ہوںگی۔ بلاول بھٹو نے انتخابی سلوگن بھی دیا ”بی بی کا وعدہ نبھانا ہے۔ پاکستان بچانا ہے“۔ بلاول بھٹو کے جذبے اور عزم سے انکار نہیں ہے وہ عقل و دانش اور سیاسی بصیرت اور مہارت کے حوالے سے پاکستان کے عوام کو متاثر کررہے ہیں البتہ ان کو پی پی پی کے حوالے سے وہ سازگار حالات نہیں ملے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملے تھے۔ پی پی پی نے بھٹو صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں 1971ءسے 1977ءتک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس، ایٹمی صلاحیت، 1973ءکا پہلا متفقہ آئین، ہزاروں جنگی قیدیوں کی رہائی، لیبر اصلاحات ، بھٹو صاحب کی شہادت، محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ میں سیاسی ہتھیار تھے۔ انہوں نے اعلیٰ بصیرت، پرجوش عزم اور شب و روز محنت کے ساتھ ان ہتھیاروں کے ساتھ جنرل ضیاءالحق کی بدترین آمریت کا مقابلہ کیا اور اپنی قیادت کو منوایا۔
بلاول بھٹو زرداری نے ابھی سیاست کے پل صراط سے گزرنا ہے۔ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو ایسا کوئی سیاسی ہتھیار نہیں دے پائے جو بلاول استعمال کرکے آگے بڑھ سکیں جبکہ سندھ میں شرمناک حکومتی کارکردگی بلاول بھٹو کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پی پی پی انتخابی منشور 2013ءکے وعدے پورے نہیں کرسکی۔ عوام نئے وعدوں پر کیسے یقین کریں گے لہذا بلاول بھٹو کو اپنی صلاحیت اور محنت سے کام لے کر ہی اپنی قیادت کو تسلیم کروانا ہے۔ لازم ہے کہ وہ آصف زرداری کے سائے سے باہر نکلیں اپنی پارٹی کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو تسلیم کریں اور عوام کو اعتماد میں لے کر اپنے بل بوتے پر آگے بڑھیں۔ پاکستان میں قیادت کا خلاءموجود ہے جسے بلاول بھٹو پرکرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ پارٹی کے مکمل اختیارات اپنے ہاتھ میں لے سکیں اور ڈکٹیشن لینا چھوڑ دیں۔ پاکستانی سیاست کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستان کا کوئی لیڈر عزت اور آبرو کے ساتھ پارٹی کی قیادت اختیار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی طویل سیاسی اننگ کھیلنے کے باوجود پارٹی قیادت سے علیحدہ ہونے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری نہیں بلکہ شخصی اور خاندانی جماعتیں بن چکی ہیں البتہ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جمہوری جماعت ہے جس کی قیادت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کو پرانے مضبوط سیاسی گڑھ لیاری میں عوامی احتجاج سے سبق سیکھنا
چاہیئے۔ پی پی پی کے حامی جائز طور پر یہ توقع کرتے ہیں کہ پانی سمیت ان کے تمام بنیادی حقوق ترجیحی بنیادوں پر پورے کیے جائیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے عوام سے معذرت کرنی چاہیئے اور انہیں یقین دہانی کرانی چاہیئے کہ وہ عوامی خدمت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے ان کو اپنے عزیز نانا کی طرح عوام کے حقوق کے لیے شہید ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔