لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی سفر کا آغاز پارٹی کے روایتی گڑھ لیاری سے شروع کر کے اپنا رخ اندرون سندھ کی جانب موڑ دیا ہے جہاں انہوں نے بدین، حیدر آباد اور دیگر شہروں میں ریلی اور جلسوں سے خطاب کیا۔ آغاز کچھ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ لیاری میں ان کے جلوس کو نہ صرف روکا گیا بلکہ جلوس کی گاڑیوں پر حملہ، توڑ پھوڑ اور پتھرائوں کیا گیا وہ منظر نامہ تھا جو پچھلے برسوں میں پیپلز پارٹی کو لیاری جیسے اپنے گڑھ میں کبھی پیش نہ آیا۔ پنجاب کے سیاسی حلقے بالعلوم اور پیپلز پارٹی کی قیادت بالخصوص حیران ہے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پنجاب میں پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے اور کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے دعوؤں کے باوجود پنجاب میں موثر انداز میں انتخابی مہم کیوں شروع نہ ہو سکی ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بے نظیر بھٹو دونوں پنجاب کی اہمیت سے مکمل آگاہ تھے اور دونوں نے ہمیشہ پنجاب کو اپنا مرکز نگاہ رکھا کیونکہ دونوں کو بخولی علم تھا وفاق میں اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کیلئے راستہ لاہور سے نہیں جاتا ہے سندھ، بلوچستان اور کے پی کے ملکر پنجاب کی 141 نشستوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے پنجاب کی 141 اور اسلام آباد کی 3 نشستیں ہی اصل میں اقتدار کس کو ملے گا کا فیصلہ کرتی ہیں آصف علی زرداری نے گزشتہ سال اور موجودہ سال کے اوائل میں لاہور کے دوران میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ لاہور آئندہ الیکشن میں ان کا فوکل پوائنٹ ہوگا اور جیالوں کے گھروں تک پہنچ کر انہیں دوبارہ فعال بنایا جائے گا اسی طرح پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے میرٹ اور پارٹی سے وفاداری کو بنیاد بنانے کا عزم کیا تھا مگر پارٹی سے سینئر رہنماؤں اور جیتنے کے صلاحیت رکھنے والے ارکان اسمبلی کی پارٹی سے علیحدگی اور بدترین مخالف جماعت تحریک انصاف میں شمولیت نے پی پی پی کے تمام عزائم خاک میں ملا دیئے سینئر ترین رہنما اعتزاز حسن نے تو پارٹی سے لاتعلقی کی انتہا کر دی انہوں نے 2013ء میں اپنی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کو اپنی سیٹ پر الیکشن لڑوایا تھا مگر انہیں ملنے والے 500 ووٹوں نے سارا بھرم کھول کر رک دیا نتیجہ چودھری اعتزاز احسن نے اپنی یہ غلطی 2018ء میں دہرانے کی جرات نہیں کی کیونکہ الیکشن لڑتے تو انہیں شاید اپنے سیاسی کیریئر کی بدترین ہزیمت اٹھانا پڑتی دوسری طرف قمر الزمان کائرہ جنہوں نے پارٹی کی ساکھ کی بچالی کیلئے اس قدر کام کیا ان کے سیاسی مخالف بھی معترف نظر آئے وہ بھی پنجاب میں سیاسی پیشرفت اور تحریک انصاف کی تیز رفتار پذیرائی سے آج پریشان دکھائی دیتے ہیں اس پر مستزاد پارٹی کے جیالے اور گزشتہ برسوں میں ہر جگہ بلند اور دبنگ آواز میںپارٹی کے فیصلوں کا دفاع کرنیوالے شوکت بسرا اور ان کے 3 قریبی ساتھیوں نے آخری لمحے میں پارٹی ٹکٹ کی بجائے آزاد الیکشن لڑنے اور جیپ کا نشان حاصل کرکے اپنی جماعت کو ششدرو شرمندہ کر دیا شوکت بسرا ملک کے بدترین فوجی آمر ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے ایک اور مثال سابق وزیراعلیٰ پنجاب، سابق سپیکر پنجاب اسمبلی، آصف زرداری کے دور حکومت میں وفاقی وزیر اور بعد ازاں پی پی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو جن کی صوبائی صدارت آصف زرداری کو بہت مہنگی پڑی تھی اپنی اولاد سمیت پارٹی کو داغ متعارف دے گئے انہیں یاد نہیں رہا پنجاب کا صدر بنانے پر آصف زرداری کو کیا قیمت جکانا پڑی تھی جیالوں نے کس طرح پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ارکان اسمبلی سے بھکر یونین کونسل عہدیدار تک اپنی قیادت سے ناراض تھے ان ناراض لیڈروں اور جیالوں نے اپنے غصے اور ناراضگی کا اظہار میاں منظور وٹو کی موجودگی میں ان اجلاسوں میں بھی کیا جن کی صدارت آصف زرداری نے کی ایک اور اہم معاملہ بلاول بھٹو کے وہ وعدے اور دعوے تھے کہ لاہور آکر جیالوں کو ان کے گھروں پر جاکر منائیں گے اور تحت لاہور ہمارا ہوگا مگر وہ پارٹی جس کی ٹکٹوں کے حصول کیلئے امیدوار منت سماجت، دعائیں، سفارش غرض ہر حربہ استعمال کرتے تھے آج اس پارٹی کا عالم یہ ہو گیا ہے مناسب امیدوار ابھی تلاش کرنے کے باوجود نہیں چلے اور جنہیں ٹکٹیں دی گئی ہیں ان میں انتخاب ڈھونڈنے کی اہلیت رکھنے والے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے لاہور میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہو سکا جنوبی پنجاب جہاں ہمیشہ پیپلز پارٹی کا غلبہ رہا اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود کو اس علاقے کی قیادت اس لئے سونپی گئی تھی کہ وہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ملکر اس علاقے کو دوبارہ پارٹی کا گڑھ بنا سکیں مگر یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جنوبی صوبے کا نعرہ یقیناً ایک ایسا نعرہ ہے جس کی بدولت ووٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔لیکن جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت کی تحریک انصاف میں شمولیت اور تحریک انصاف کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبے کا علم اٹھا لینے سے پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں اس دل سے دوچار نظر آتی ہے جو سینٹرل پنجاب میں اس کا ہو چکا ہے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ناراض رہنماؤں کو منانے کے اپنے دعوے اور وعدے پر عملدرآمد نہ کر سکے جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی عام انتخابات کی مہم اب صرف 20 روز باقی رہ گئے ہیں اورپیپلز پارٹی کی طرف سے تاحال کوئی بڑا جلسہ، کوئی بڑی ریلی کا نہ اہتمام کیا گیا اور نہ کوئی اعلان آئندہ چند روز کے حوالے کیا گیا ہے پارٹی کے منشور کا اجراء بیحد طمطراق سے کیا گیا مگر پارٹی کے ورکرز کو اس کی کاپی تک نہیں ملی الیکٹرانک میڈیا جس پر کبھی پیپلز پارٹی وفاق کی اہم جماعت اور پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے طور پر نظر آتی تھی آج وہاں اس کا لیڈر خال خال ہی دکھائی دیتا ہے اس صورتحال کو سیاسی تجربہ کار سیاسی کسمپرسی کہہ کر پکار رہے ہیں ان حالات میں 25 جولائی کو کیا ہوگا پارٹی کے لیڈر اور کارکن اور پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے جاسوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔