صبح صبح ایک دوست کا فون آیا کہنے لگا گھر ہی ہونگے، ہم نے کہا بالکل، خیریت اتنی صبح فون، کہنے لگا بس گھر ہی رہیں تھوڑی دیر میں آپکی طرف آ رہا ہوں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ آخر اسے کیا ہوا ہے۔ اس نے تو کبھی ایسے فون نہیں کیا۔ اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے، رزق حلال کی جستجو میں اسے اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ دوستوں سے ملے جلے، تقریبات میں جائے، بیٹھک لگائے۔ بہت زیادہ لوگوں سے ملتا جلتا بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جو چند جاننے والے ہیں وہ اس کی بہت قدر کرتے ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مواقع ملنے کے باوجود کبھی بھٹکا نہیں، اس کے سامنے ساتھ کام کرنے والے مالی طور پر بہت مضبوط ہو گئے، ترقی کر گئے، آگے نکل گئے، وہ بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، ملکوں ملکوں سیر کرتے ہیں لیکن اس نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ یہ ہمیشہ اپنے حالات پر خوش رہا ہے اور سب سے اہم بات پرسکون زندگی بسر کرتا ہے کبھی مال و دولت اور بناوٹی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگا، ہمیشہ مطمئن رہتا ہے۔ آج صبح صبح فون آیا ہے یقینا کوئی بڑی بات ہو گی، اللہ نہ کرے کوئی ایسی ضرورت ہو کہ میں پورا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ بیل ہوئی گیٹ پر گئے اور ہنستے مسکراتے چہرے کو ڈرائنگ روم میں لے ائے۔ بیٹھتے ساتھ کہنے لگا چودھری صاحب اچھی سی چائے بنوائیں اور براہ کرم اپنا موبائل فون بند کر دیں۔ کچھ وقت موبائل سے الگ ہو کر بھی زندگی گذار لیا کریں زندگی کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں، ملک کے سیاسی حالات پر بات چیت، علاقائی سیاست پر گفتگو، وزیراعظم عمران خان سے جڑی امیدوں پر تبادلہ خیال، سیاست کا مستقبل، سیاست دانوں کے آنے والے دن، بدلتی ہوئی علاقائی سیاست، مہنگائی کا طوفان، کرکٹ ورلڈکپ سمیت سارے موضوعات پر گفتگو ہو چکی لیکن ابھی تک اصل موضوع پر بات آئی نہیں تھی۔ ہمارا صبر جواب دے رہا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ یہ شخص سارے جہان کی باتیں کر رہا ہے لیکن آمد کے مقصد پر ابھی کوئی بات نہیں کی۔ ہماری بے چینی کی وجہ کچھ اور تھی۔ آخر کار ہم نے اسے ٹوکا اور پوچھا یہ ساری باتیں ہم ہر جگہ کرتے رہتے ہیں اتنی صبح فون کرنے اور ہنگامی حالت میں دورے کی کیا خاص وجہ تھی۔ اس نے لمبا سانس لیا اور بولا یار چودھری صاحب ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا، ہم نے پوچھا کیوں خیریت ، کہنے لگا کہ رات گھر گیا تو بچوں نے گھیر لیا، بہن بھائیوں کے بچے بھی آئے ہوئے تھے اپنے بھی ان کے ساتھ مل کر زیادہ پرجوش ہو گئے۔ سب نے جکڑ لیا ہر کسی کا اپنا سوال تھا، ایسے ایسے سوالات تھے کہ عقل دنگ رہ جائے اور کوئی جواب نہ بن پائے، کوئی کہے ماموں کتنے ماہ ہو گئے آپ ہماری طرف آئے نہیں، کوئی کہے تایا کتنے ہفتے گذر گئے آپ ملے نہیں، کوئی کہے چچا یہ کوئی بات ہے کہ اب آپ ہمیں ملنے بھی نہیں آتے، سب بچوں میں بیٹا بیٹھا تھا اچانک بولا ماما اے سی کا ریموٹ کہاں ہے، اے سی بند کریں کافی دیر سے چل رہا بہت زیادہ بل آئے گا۔ بجلی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ بل بہت زیادہ آئے گا تو ہمارے پاس اتنے پیسے ہونگے کہ بل جمع کروا سکیں۔ اب وہ بچہ اسے کون روکے کون سمجھائے کہ مہمانوں کے سامنے ایسے نہیں کہتے، اس کے ساتھ ہی وہ اپنے کزنز کو کہنے لگا دیکھو اب ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ بابا ہمیں باہر لے جائیں، ہم کئی ہفتوں سے رائیڈز لینے بھی نہیں جا سکے، اب ہم کھلونے بھی نہیں خرید سکتے کیونکہ بہت مہنگے ہو گئے ہیں، بڑی مشکل سے سکول فیس جمع کرواتے ہیں، پتہ نہیں بابا کی تنخواہ اتنی کم کیوں ہے، انہیں اتنے پیسے کیوں نہیں ملتے، میرے فرینڈز مری سیر کرنے گئے تھے، پھر وہ سکول کی ہر پارٹی میں نئے نئے کپڑے پہن کر آتے ہیں، وہ سب پارٹیز میں شرکت کرتے ہیں، ہم وہ بھی نہیں کر سکتے، بچے ایسی باتیں کر رہے تھے کہ کھانا لگ گیا، ہم سب کھانے میں مصروف ہو گئے لیکن چودھری صاحب میری بھوک اڑ چکی تھی۔ میں بظاہر وہاں موجود تھا لیکن حقیقت میں کسی اور دنیا میں جا چکا تھا۔ رات دیر تک یہی سوچتا رہا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہو گا،یہ ننھے منے بچے کن سوچوں اور خیالات میں بڑے ہو رہے ہیں، ان کی نشوونما کن حالات میں ہو رہی ہے، یہ کیسے احساس محرومی میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں بچپن میں ہی وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے والدین کے پاس وسائل نہیں ہیں، وہ چیزیں خرید نہیں سکتے، وہ فنڈز کی کمی کیوجہ سے سردی اور گرمی کو کم کرنے والی چیزیں استعمال نہیں کر سکتے، وہ سکول میں اپنے دوستوں کے مطابق زندگی گذارنے سے قاصر ہیں وہ اپنے ہمسایوں کے بچوں کی طرح پہاڑی علاقوں میں سیر کو نہیں جا سکتے۔ اس قسم کے حالات میں وہ ہمارے سامنے بڑے ہو رہے ہیں اور ہم ان کے لیے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
چودھری صاحب ان کا مستقبل کیا ہے، یہ بچپن سے ہی پیسوں اور وسائل کی کمی کی فکر میں مبتلا ہیں، یہ تو منفی رجحان ہے، منفی خیالات ہیں، کیا ان حالات میں بچوں سے تعمیری کام کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بس یہ وجہ تھی کہ صبح صبح آپکو فون کیا اور چلا آیا کہ آپ تو کہیں کچھ کہہ سکتے ہیں، کچھ کر سکتے ہیں۔ چند دن پہلے کالم میں آپ نے وزیراعظم سے ملاقات کا ذکر کیا تھا دوبارہ ملاقات ہو تو انہیں ملک کے بچوں کا یہ پیغام ضرور پہنچائیں کہ مستقبل کے معمار کن سوچوں کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے، یہ رجحان تشویشناک ہے، حکمرانوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ اس پہلو پر کام کریں، سوچ بچار کریں اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ بس یہی بات کرنے آپ کی طرف آیا ہوں۔ بہت وقت لے لیا ہے۔ اب اجازت دیں، پھر کبھی ملاقات ہو گی۔
یہ سب کہہ کر وہ چلا گیا لیکن ہماری پریشانی میں اضافہ کر گیا۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ ننھے منے بچوں کا کیا قصور ہے، جب کہ انہیں اپنی حفاظت کا علم نہ ہو، کھانے پینے میں احتیاط کرنا بھی نہ جانتے ہوں، معصوم بچوں کے ذہنوں میں ایسے خیالات اور سوالات یقینا پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں، وہ جو ہمارا مستقبل ہیں وہ اتنی منفی سوچ میں نشوونما پائیں گے تو ان کی زندگی کا مقصد ہی چھینا جھپٹی بن جائے گا، وہ احساس محرومی میں جوان ہونگے تو طاقت و قوت حاصل کرنے بعد بچپن کی محرومیوں کو دور کرتے کرتے اتنا دور نکل جائیں گے کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ انکی زندگی کا مقصد ہی یہ بن جائے گا کہ اگلی نسل کو اتنے پیسے دینے ہیں کہ وہ گرمی میں دل کھول کر اے سی چلائیں، دل کھول کر کھلونے خریدیں، رائیڈز لیں اور سیریں کریں انہیں پیسوں کی کمی نہیں ہو گی۔
کیا ہم اپنے بچوں کو پیسے کمانے کی مشین بنانا چاہتے ہیں یا انہیں بامقصد زندگی کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے بچوں کو کیسا مستقبل دینا ہے۔ وقت کے حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نکالیں انکی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے کے اقدامات کریں، مہنگائی اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ بچوں کے ذہن بھی متاثر ہونا شروع ہو جائیں۔یہ صورت حال توجہ مانگ رہی ہے، یہ صورت حال سنجیدگی کا تقاضا کر رہی ہے، یہ صورت حال عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ آواز بلند کریں، اپنے لیے اپنے بچوں کے لیے، آنیوالی نسلوں کے لیے، روشن اور محفوظ پاکستان کے لیے، ایسے بچوں کے لیے جن کی زندگی کا مقصد پیسہ بنانا نہ ہو بلکہ ان کا مقصد انسانیت کی بھلائی اور لوگوں کی خدمت کرنا ہو، ہمیں یہ کوشش آج سے شروع کرنی ہے، ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں۔