لاہور ہو، اور لاہور کا فائیو سٹار آواری ہوٹل۔ اس میں ایک تقریب سجی ہو، وہ بھی ایک کتاب کے حوالے سے، تو ہم جیسے لکھاریوں کی عید ہو جاتی ہے۔ یہ 29جون کا ایک ڈھلتا ہوا دن تھا۔ سورج پوری آب و تاب اور تمام تر حشر سامانیاں برپا کرنے کے بعد دو اڑھائی گھنٹے بعد غروب ہونے والا تھا۔ گرمی اسکے اس شدید اور جھلسا دینے والے موسم میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ابھی رُکا نہیں تھا۔یہ سب لوگ ملک کے نامور صحافی ، نوائے وقت کے سینئر ایڈیٹر، کالم نگار، مصنف محترم سعید آسی کی لکھی ہوئی کتاب ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے آ رہے تھے۔ آج گرمی کی جتنی شدت اور تمازت تھی۔ آواری کا اندرونی موسم اتنا ہی ٹھنڈا اور یخ بستہ تھا۔ ایئر کنڈیشنڈ پلانٹ سے جو ٹھنڈی اور یخ بستہ ہوائیں آ رہی تھیں انہیں محسوس کر کے تمام مہمان باہر کی گرمی بھول چکے تھے۔ اب سب نے خود کو ’’آواری‘‘ کے یخ بستہ ماحول میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ …سعید آسی کے سفرنامے پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے، جو ادب کی دنیا میں اپنی الگ ہی پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے اور اب ایک ادبی تنظیم’’پی سی آئی اے‘‘ نے بھی بڑے اہتمام کے ساتھ اس کتاب کی رونمائی کا انعقاد کر رکھا تھا۔ صاحبِ کتاب سعید آسی اِس خصوصی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ کتاب پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں سید افضل حیدر، اسداللہ غالب‘ سید محفوظ قطب‘ وحید رضا بھٹی‘ عمار چودھری‘ معظم علی‘ منظور احمد اور سینئر صحافی اور اینکر پرسن افتخار احمد شامل تھے۔ سب نے محترم سعید آسی کے اسلوب تحریر پر انہیں دل کھول کر داد دی۔ سعید آسی کا یہ ایسا سفرنامہ ہے جو انہیں صحافت و ادب کی دنیا میں اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ دلچسپی اور دلکشی اس کے ہر باب میں نمایاں بھی ہوتی ہے اور ظاہر بھی۔ سعید آسی کتاب پڑھنے والوں کو شروع ہی سے اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور آخری باب تک ساتھ رہتے ہیں۔ سعید آسی سابق وزرائے اعظم میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ سرکاری دورے پر اُس وفد کے ہمراہ تھے جو برونائی، انڈونیشیا اور مالدیپ گیا۔ یہ تینوں اسلامی برادر ملک ہیں۔ یہاں کی اپنی ثقافت اور تہذیب ہے۔ یہاں رہن سہن کا جو طریقہ ہے اُسے سعید آسی نے بڑے اچھے اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ تحریر کی خوبصورتی یہ ہے کہ کوئی اس کے سحر سے باہر نہیں نکلتا۔ آسی صاحب کا اپنا جو گہرا مشاہدہ اور صحافتی تجربہ ہے وہ اس کتاب میں پوری طرح جھلکتا ہے۔ کتاب میں آسان اور بہترین لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے کتاب کی اہمیت اور افادیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ کتاب کو اس انداز سے لکھا گیا ہے کہ پڑھنے والوں کی دلچسپی اور تجسس ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ واقعات کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ پڑھنے والا خود اس منظر کشی کا حصہ بن جاتا ہے۔ محترم سعید آسی نے کتاب ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ لکھ کر ادب و صحافت کی جو خدمت کی ہے اُس پر وہ بجا طور پر زبردست خراج تحسین کے حق دار ہیں۔ بلاشبہ اُن کا شمار ادب و صحافت کے عظیم شہسواروں میں کیا جاسکتا ہے ۔
کتاب کے حرفِ آغاز میں سعید آسی کا یہ ایک بڑا معنی خیز ہے ’’مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے مقدرات کے سفر کی کہانی رنگین سے زیادہ سنگین ہے۔‘‘
سفرنامہ مالدیب سے شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں سعید آسی سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ہمراہ 1990ء میں مالدیب گئے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد نواز شریف کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ سفرنامے کا پہلا باب ’’کالا پانی‘‘ پر مشتمل ہے۔ جس میں سعید آسی نے کالا پانی کی سزا پر دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔ سفرنامہ پڑھتے ہوئے بعض اوقات کسی جاسوسی ناول کا گمان ہوتا ہے۔ صاحب کتاب نے کچھ اس انداز سے یہ سفرنامہ لکھا ہے کہ ہر باب اور پیراگراف کے بعد ایک عجیب قسم کا تجسس پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔
برونائی کا سفر سعید آسی نے مارچ 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا۔ سعید آسی نے اپنی کتاب میں ایسے واقعات کو بھی تحریر کیا ہے جو عام مسافروں کو جہاز کے سفر میں پیش آتے ہیں کسی صحافی کو بیرون ملک سرکاری وفد کے ساتھ دورے پر جانا ہو اُسے ہنگامی طور پر آگاہ کیا جاتا ہے ۔ ارجنٹ پاسپورٹ بننے سے لے کر سفری بیگ کی تیاری تک جو مرحلے پیش آتے ہیں۔ سعید آسی نے اُن سب کا اس کتاب میں بڑے دلچسپ انداز سے احاطہ کیا ہے۔انڈونیشیا کا سفر اس کتاب کے سفرنامے کا آخری حد ہے۔ یہ سفر محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور نصرت بھٹو کے ساتھ طے ہوا۔ اس دورے میں صدرسہارتو سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس عظیم مسلمان لیڈر سے ملاقات کا تفصیلی اور سیر حاصل ذکر بھی سفرنامے بھی موجود ہے۔پاکستان میں کئی لوگوں نے سفرنامے لکھے ہیں لیکن ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ ایک منفرد اور دلچسپ سفرنامہ ہے جسے محترم سعید آسی نے بڑی محنت سے لکھا ہے۔ ’’آواری‘‘ میں اس کتاب کے حوالے سے جو تقریب رونمائی ہوئی اُس نے اس کتاب کے کئی در کھولے، کئی ایسے پہلو سامنے آئے جس سے ان تینوں دوست اسلامی ملکوں کی ناصرف تہذیب و ثقافت کا پتہ چلا بلکہ اس بات کی بھی عکاسی ہوئی کہ مالدیب غربت و افلاس کے باوجود ترقی کے نئے سفر کی طرف گامزن ہے۔ سعید آسی نے یہ کتاب لکھ کر اور قلم فائونڈیشن نے اسے شائع کر کے پڑھنے والوں پر ایک احسانِ عظیم کیا ہے۔ ایسی کتابوں کو نہ صرف سرکاری لائبریریوں کی زینت بنناچاہیے، بلکہ حکومتی سطح پر بھی ایسی کتابوں کو سراہا جانا چاہیے۔
’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ سسپنس سے بھرپور ایک متاثر کر دینے والا دلچسپ سفرنامہ ہے۔ جسے آپ جوں جوں پڑھتے جائینگے اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ ادب و صحافت کی دنیا میں اس کتاب کی صورت میں ایک نئے اضافے کو ہم سراہتے ہیں اور اتنی بہترین کتاب کی مارکیٹ میں دستیابی پر نہ صرف جناب سعید آسی بلکہ اس کتاب کے پبلشر قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
کس کی لگن میں پھرتے ہو
Jul 04, 2019