پاکستان معاشی طور پر اس وقت ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی نو زائیدہ حکومت حتی الامکان کوشش کے باوجود مہنگائی کے بے قابو جن کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھتی ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے 67.5% افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہیں ۔ کاشت کاری میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا GDP غیر توازن ہے اور معاشی ترقی بھی سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان کی GDP میں کاشت کاری کا حصہ 25%ہے ۔تقریباً 45%افراد کا روزگار کاشت کاری کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ تقریباً 62%افراد جن کا تعلق دیہی علاقہ جات سے ہے وہ بھی روزی روٹی کمانے کیلئے کاشت کاری کے شعبے سے منسلک ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سخت گرمی میں کھلے آسمان کے نیچے اور یخ بستہ سردی میں ستاروں کی روشنی میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے ملک کیلئے زرِ مبادلہ اکٹھا کر تے ہیں ،ملکی صنعت کیلئے خام مال پیدا کرتے ہیں۔ زرعی پیدا وار میں اضافہ ہی ملکی معیشت کی حالت بہتر کر سکتا ہے۔اس وقت حکومت مکمل طور پر ملکی معیشت کا سہاراIMF اور ورلڈ بینک کو مانے ہوئے ہے۔ لیکن اگر زراعت کے شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تو پاکستان ہر قسم کے قرضوں سے آزاد ہو سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ اگر زراعت پر توجہ دی جائے تو پاکستان جو کہ UNDP کے مطابق آبادی میں ہر سال 2%بڑھ رہا ہے ۔زراعت سے عام انسان کی بنیادی ضرورت یعنی کہ خوراک کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ خدا داد نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم اربوں ڈالر کی گندم بیرون مارکیٹ سے خریدتے ہیں ۔اس سال حکومت نے کپاس کا ہدف سوا کروڑ بیلز کا مقرر کیا ہے ۔ لیکن پچھلے سال کاٹن کی پیداوار 6.8%کم ہوئی ہے جو کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں 2015کے بعد کم ترین ہے اور تقریباً 90لاکھ بیلز کی پیداوار ہوئی ہے۔ چاول کی پیداوار میں بھی اس طرح کمی واقع ہوئی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں باسمتی چاول کی بہترین قسم پیدا ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ سال باسمتی چاول 1,83,000 (ایک لاکھ تیراسی ہزار) ٹن برآمد کیا گیا ۔ جو کہ گزشتہ سالوں سے 4%کم ہے ۔ پاکستان کی حکومت کی غیر ذمہ داری اور عدم دلچسپی کے با عث ہندوستان اور بنگلہ دیش نے چاول کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اسی طرح گنے کا کاشت کار بھی بد حالی کا شکار ہے۔ شوگر مل مالکان گنے کے غریب کاشتکار کے سرمائے کو ہضم کر کے بیٹھے ہیں پچھلے سال گنے کے کاشت کار کو 133بلین کا خسارہ ہوا جو کہ مل مالکان کی ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ سے تھا ۔ پاکستان کے کسان کو دنیا کے باقی ممالک کے کسانوں کو ملنے والی سبسڈی کے مقابلے میں صرف 20%ملتی ہے ۔ چین اور انڈیا میں پاکستان سے زیادہ سبسڈی کسانوں کو دی جاتی ہے ۔ اس لیے ان کا کاشتکاری کا شعبہ ہم سے بہتر ہے۔ چونکہ ان ممالک میں حکومت کی طرف سے مراعات ملنے کی وجہ سے فصل پر کاشت کا خرچہ کم ہوتا ہے اس لیے وہ بیرون ملک اس کو کم نرخ پر بیچ سکتا ہے لیکن پاکستان میں کسان کا فی ایکڑ فصل پر خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسکی وجہ ٹیوب ویل یا بجلی کا فکس ریٹ نہ ہونا ، مہنگی کھاد ، مہنگا ڈیزل اور زرعی ٹیکس ہے ۔ انکی وجہ سے بڑے کاشت کار بھی اپنی زمینیں ٹھیکے پر دے رہے ہیں۔ اور چھوٹا کاشت کار جو کہ چار ایکڑ سے دس ایکڑ کا مالک ہے اس کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے خطرناک مسئلے سے دوچار ہے ۔ حکومت کی طرف سے ڈیم بنانے کی مہم شروع کی گئی ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن کسانوں کیلئے دریائوں اور نہروں پر بجلی بنانے کے منصوبے تیار کرنے چاہئیں۔ اگر انڈیا اپنے کسانوں کیلئے بجلی پیدا کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ؟پاکستان کے زراعت کے شعبے کی تنزلی کی بڑی وجہ کسانوں کے پاس جدید مشینری اور اوزاروں کا نہ ہونا ، معیاری سیڈ کی غیر فراہمی، ملاوٹ شدہ دوائیاں ہیں ۔ پاکستان کے کسان زیادہ تر اَن پڑھ ہیں ان کیلئے تمام معلومات کا زریعہ ریڈیو اور ٹی وی ہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو جدید معلومات فراہم کرنے کیلئے سیمینار ز کا انعقاد یونین کونسل لیول پر ہو۔ زرعی ریسرچ سینٹر زبھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہاڑی مقامات پر چونکہ پانی کی کمی کے باعث پیداوار کم ہوتی ہے وہاں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے چاہئیں ۔ اس سے یقینا قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اسکے علاوہ نہری پانی کی چوری میں چونکہ بڑے زمیندار شامل ہوتے ہیں ۔ چھوٹے کاشت کار کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور اسکے حصے کا پانی اُس کی فصل کو نہیں مل پاتا ۔ چھوٹے کاشت کار کیلئے ذرعی قرضے فراہم کرنا حکومت کا اہم فرض ہے ۔پاس بُک کی موجودگی کے باوجود زرعی قرضے کا حصول سفارش یا رشوت کے بغیر ممکن نہیں اور پھر اگر کسی وجہ سے قرضے کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو بینک اور تحصیل کا عملہ غریب کاشت کار کو فوری حوالات میں بند کر دیتے ہیں اور اس کو اپنی زمین بیچ کر قرض ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسی سرزمین پر امیر اور کارخانے دار لوگ بینکوں اور غریب عوام کا پیسہ بینک سے قرضوں کی صورت میں معاف کرواتے ہیں ان پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ ان کے نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے نئے بجٹ میں زراعت کیلئے ایک بلین سے رقم بڑھا کر 12بلین کر دی گئی ہے جس میں کئی نئے منصوبے بنائے گئے ہیں لیکن زراعت کے شعبے میں ترقی ایک ہی صورت میں ہو گی جب غریب کسان کے بارے میں سوچا جائیگا اور ایسے منصوبے ترتیب دئیے جائیں جو کہ صنعت کاروں یا بڑے مل مالکان کیلئے نہیں بلکہ غریب، ہاری اور چھوٹے کسانوں کے فائدے کیلئے ہوںگے۔