جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن آٹھ روز قبل کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ غالباً اگست 2003 کا واقعہ ہے کہ جماعت اسلامی پنجاب نے اپنے ارکان کے لیے جی ٹی روڈ کھاریاں پر واقع جامع مسجد شفیق میں تربیت گاہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اختتامی سیشن سے سید منور حسن نے جو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکرٹری تھے خطاب کرنا تھا۔اس موقع پر سوال و جواب کا سلسلہ طویل ہوا تو اختتامی سیشن جس کا وقت دو بجے تھا وہ ساڑھے تین بجے شروع ہوا۔ سید منور حسن اپنے مقررہ وقت سے کافی پہلے سٹیج پر پہنچ چکے تھے۔ سٹیج سیکرٹری نے جونہی انھیں خطاب کی دعوت دی تو اپنے مزاج کے عین مطابق سید منور حسن نے منتظمین کو جھاڑ پلا دی انھوں نے یہ کہتے ہوئے خطاب سے انکار کر دیا کہ 'جو تحریک وقت کی پابندی نہیں کر سکتی وہ کبھی انقلاب نہیں لا سکتی۔'اس کے بعد وہ ارکان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ ’آپ کے ذہن میں جماعت کی پالیسی اور قیادت کے بارے میں سوالات ہیں تو میں ان کے جوابات دینے کے لیے حاضر ہوں منتظمین سے اب میں اجازت چاہوں گا۔‘جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن ایک مختلف المزاج شخص تھے۔ ان کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ کسی کے سامنے بھی وہ بات کہنے سے باز نہیں رہتے تھے جسے وہ درست سمجھتے تھے۔دوسری جانب وہ اتنے سادہ مزاج تھے کہ اپنی بیٹی کی شادی پر کارڈ چھپوانے کے بجائے اپنے لیٹر ہیڈ پر ہاتھ سے لکھا دعوت نامہ بھیجا کہ وہ اپنی دعاؤں میں بیٹی کو رخصت کریں۔جب وہ امیر جماعت اسلامی کے منصب پر فائز تھے اور منصورہ مرکز میں قیام پذیر تھے انھی دنوں سید منور حسن کی ایک بیٹی کی شادی ہوئی۔امیر جماعت ہونے کی وجہ سے پاکستان بھر سے سماجی وسیاسی شخصیات نے شادی کی تقریب میں شرکت کی اور بڑی تعداد میں تحفے تحائف پیش کیے۔جب رخصتی کا وقت آیا تو سید منور حسن نے کہا کہ ان کی بیٹی کو تحائف اس لیے ملے کہ وہ جماعتِ اسلامی کے سربراہ کی صاحبزادی ہیں لہذا ان پر ’ہمارا کوئی حق نہیں۔‘ اور وہ سارا مال جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیا۔ سید منور حسن قاضی حسین احمد کے بعد جماعت اسلامی کے امیر بنے تھے۔ جب وہ جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے تو کچھ عرصے کے لیے قائم مقام امیر بنے تو ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ جماعت کا امیر بننا کیسا لگا تو انھوں نے جواب دیا کہ جس منظم انداز میں قاضی صاحب جماعت کے لوگوں، پروگرامات اور ایجنڈے کو جوڑتے اور آگے بڑھاتے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔لیکن جماعت اسلامی کے ارکان اور رہنماؤں کا خیال ہے کہ قاضی حسین احمد سیاسی محاذ پر کامیابی اس وجہ سے تھی کہ سید منور حسن نے بطور جنرل سیکرٹری جماعت کے نظم کو سنبھالے رکھا تھا۔سید منور حسن جب امیر جماعت بنے تو ان کے لیے قاضی حسین احمد کی قیادت میں پھلنے والی جماعت اور اس کی رفتار کو سنبھالنا چیلنج تھا۔ اپنی طبیعت کی وجہ سے وہ متنازع بھی بنے۔ سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیرتھے۔ اگست 1941 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوا۔انہوں نے1963 ء میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا اور 1966ء میں دوبارہ کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ وہ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ منور حسن بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریش میں 1959 میں شامل ہوئیاور بعد میں اس تنظیم کے کراچی چیپٹر کے صدر بن گئے۔ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبا شامل ہو گئے اور جلد ہی جامعہ کراچی کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن بنا دئیے گئے۔1962 میں اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی کے ناظم رہے اور 1963 میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔ 27 دسمبر 1964 کے سالانہ اجتماع میں سید منورحسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔سید منور حسن نے 1967 میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیر اور پھر امیر جماعت اسلامی کراچی کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ سید منور حسن مارچ 2009 میں جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے۔سید منور حسن نے 1977 میں کراچی سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے لیکن اسمبلی کے بجائے جیل چلے گئے۔ان کے انتقال پر ان کے دیرینہ ساتھی اور جماعت اسلامی کے نائب امیر حافظ محمد ادریس نے اپنے فیس بک پیج لکھا کہ 'بھائی جان! دل آپ کے فراق سے زخمی ہو گئے ہیں لیکن ہم اپنی زبان سے وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مرد مجاہد، سید منور حسن
Jul 04, 2020