یاراں نال بہاراں

میں 15 سال کا تھا تو اپنے دوستوں کے گروپ کا موازنہ اپنی سے بڑی عمر کے لڑکوں کے گروپ سے کرتا تو مجھے اپنے دوست لااُبالی طبعیت کے مالک اور غیر سنجیدہ مزاج کے لگتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ہم میں میچورٹی کی کمی ہے۔لیکن پھر ڈھارس محسوس ہوتی کہ کوئی بات نہیں پانچ سات سال میں ہم بھی میچور ہو جائیں گے۔ خیر سے بیس پچیس پھر تیس کے بھی ہو گئے لیکن حلقہ احباب میں میچورٹی نہ آنی تھی نہ آئی۔ ٹرک کی بتی کی طرح ہم میچورٹی کے پیچھے لگے رہے اور اب چالیس کے بعد یہ خیال پختہ ہو گیا ہے کہ یہ میچورٹی دوستوں کے گروپ میں کبھی بھی نہیں آئے گی۔ اور اس کا نہ آنا ہی بہترین ہے۔ کیونکہ عام زندگی نوکری کی ہو یا کاروبار کی وہ مخصوص ضابطوں، طے شدہ قرینوں ، اور ایک خاص سلیقے کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے۔ زندگی کے معاملات میں ہر گھڑی سودوزیاں کا احساس ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ ایک جیسے روز و شب اور معمول کی سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ ہم زندگی گزار نہیں رہے ہوتے زندگی ہمیں گزار رہی ہوتی ہے۔ اپنے فرائض ، دوسروں کے حقوق ، حفظ ِمراتب ، رکھ رکھاؤ ، یہ کرو ، وہ نہ کرو، کہیں آنا جانا اور انہی گھن چکروں میں اپنے آپ سے ملاقات ہو ہی نہیں پاتی۔لہذا کوئی ایسا سرکل ہونا چاہئے جہاں پر جا کر زندگی ہمیں نہ گزارے بلکہ ہم زندگی کو گزاریں ۔اس کے لمحوں سے خوشیاں کشید کریں اور قہقے بلند کر کے زندگی زندہ دلی سے گزاریں۔ظاہر ہے یہ پناہ گاہ دوستوں کی بزم ہی ہوسکتی ہے۔ اور اس انجمن کے اندر زندگی عام سی ، بے ترتیب اور بے ڈھنگ ہی اچھی لگتی ہے۔
 مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر 
 وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے
گزشتہ دنوںگوروں کے دیس سے آئے ہوئے دوست انجینئر عثمان منیر نے ہم دوستوں کو لاہور میں’’ گیٹ ٹو گیدر‘‘ کی دعوت دی۔ اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد سے رضوان صدیق اور جنید عاقب ، پیرمحل سے عثمان منیر ، شجاع آباد سے رانا عاصم اور ملتان سے میں، لاہور میں انجینئر فرحان فرید کی رہائش گاہ پر اکٹھے ہوگئے۔ یہ دو دن یوں لگے کہ جیسے وقت کا پہیہ پیچھے گھوم گیا ہے اور ہم کالج کے ایام میں واپس چلے گئے ہیںلیکن ایک فرق ضرور تھا کہ سب کے اندر پائے جانے والے مراثی پن میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید نکھار آگیا تھا۔ عثمان جمشید ، ملک آصف اور شہزاد محسن کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ باتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تو دوپہر سے شام ، شام سے رات، پھر رات ڈھلنے تک باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔قول مبارک ہے کہ ’’ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ ‘‘ مگر 21 سال سے رشتہ دوستی میں منسلک دوستوں کا یہ سرکل ایک دوسرے کی مینٹل تھراپی کرنے میں مصروف عمل تھا ، ہے اور رہے گا۔ کچھ چیزوں کے متعلق سن رکھا ہے کہ جتنی پرانی ہو اتنی ہی مزیدار ہوتی ہیں۔جیسے چاول ،گڑ اور مشروب خاص، لیکن میرے خیال میں اس فہرست میں دوستی سر فہرست ہونی چاہئے کہ پرانے دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔یہ بات کسی نے سچ ہی کہی ہے کہ زندگی میں بہاریں ہوتی ہی یاروں کے دم سے ہیں۔
ہم گزشتہ تیس برسوں سے لاہور آجا رہے تھے اور اس شہر بے مثال کی ہر قابل ذکر چیز تک رسائی حاصل کر چکے تھے۔ لیکن اس بار پرانے دوستوں کے ساتھ گھومنے کا مزا ہی الگ تھا۔ یوں لگا جیسے ہر چیز میں ایک نیا پن آگیا ہو اور ہم ہوا کے دوش پر سوار ہوں۔ جناب علی ہجویر کی اس نگری کی ہر چیز نرالی ہے۔ چاہے وہ راوی کنارے کی شام ہو یا زمانے کی بے ثباتی کا شکوہ کرتا مقبرہ نور جہاں ، پرشکوہ بادشاہی مسجد ہو یا عظمت گزشتہ کی داستان سناتا شاہی قلعہ ، بارہ دری میں بیٹھنے کا سکون ہو یا شاعر مشرق کے حضور حاضری کا لطف ، انار کلی کی رونقیں ہوں یا مینار پاکستان کا غرور و تمکنت ، لکشمی چوک کے کھابے ہوں یا شہر کے روایتی ناشتے ، الفلاح تھیٹر کی رنگین راتیں ہوں یا پارکوں میں رنگ و نور کا سیلاب ،کشادہ سڑکیں اور بلند و بالا عمارتیں ہوں یا نہر کنارے جھومتے درخت ، سبزے اور خوشبوؤں سے نہایا ہوا لاہور کے ماتھے کا جھومر باغ جناح ہو یا شالامار باغ کی زیبائی،غرض لہور لہور اے ۔
جس طرح یہ شہرِ دل آویز آپ کیلئے محبت بھری بانہیںکھول دیتا ہے ، ویسے ہی ہمارے دوست بھی ہمیں آغوش۔ محبت میں سمیٹ لیتے ہیں۔جس طرح یہ شہر علم و دانش کا گہوارہ اور تقسیم کنندہ ہے ویسے ہی مخلص دوستوں کی بزم بھی گوہر ِ نایاب لٹاتی ہے۔ جس طرح اس شہر کے باسی زندہ دلانِ لاہور کہلاتے ہیں اور اپنے شہر پر فخر کرتے ہیں ویسے ہی دوستی کے تعلق کو وضعدار اور زندہ دل ہی نبھاتے ہیں اور اس پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ دوست ایک دوسرے کیلئے وفا ، سکون ، روشنی اور خلوص کے پودوں کی آبیاری کرتے ہیں اور پھر ان کی چھاؤں میں زندگی پرسکون ہو جاتی ہے۔ جناب علی ابن ابی طالب کا قول ہے۔’’کامیابی حوصلوں سے ملتی ہے اور حوصلے دوستوں سے ملتے ہیں اور دوست مقدر سے ملتے ہیں ۔ ہمیں چاۂے کہ ہم اپنے اپنے مقدر کے دوستوں کے ساتھ ایک دوسرے کی مینٹل تھراپی کرتے رہیں۔ سکونِِ دل کی دوا حلقہ یاراں میں وافر ملتی ہے۔ مینٹل تھراپی کا یہ عمل ذہن و دل پر انمٹ مثبت نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ 
ہم دوستی میں درختوں کی طرح ہیں احسن 
 یہاں لگ جائے وہیں عمروں کھڑے ملتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...