گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاک بھارت پیش رفت پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ مودی اور عمران خان کے بیانیے روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھیمے اور تسلسل سے جاری ہے ۔ بھارتی معیشت مجموعی طور پر خاصی مستحکم ہے شائد اسی وجہ سے بادی النظر میں پاکستان پر اس صورتحال کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔ اسی تناطر میں اس امر کا تذکرہ بھی شائد بیجا نہ ہو کہ مودی اور عمران خان نے اپنی زیادہ تر لڑائی سوشل میڈیا کی وساطت سے جاری رکھی ہے اور ابھی بھی ان دونوں کا سارازور اسی شعبے میں ہے ۔مثال کے طور پر کپتان تسلسل کے ساتھ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں پوری طرح کرپٹ ہیں اور میں اس صورتحال کے خاتمے کیلئے تمام تر جہدوجہد کررہا ہوں مگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو اس دعویٰ کا کھوکھلا پن پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کیوں کہ پونے چار سال تک موصوف پاکستان کے تمام تر سیاہ سفید کے مالک تھے مگر اس کے باوجود وہ مبینہ کرپشن کے کسی ایک بھی معاملے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔
یوں اُن کے تمام تر بیانات الزامات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور محض الزامات کی بنیاد پر کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے یوں بھی پاکستان کے سابق چیف جسٹس آصف سید کھوسہ سمیت اکثر حلقے کپتان کی اس روش کو پولیٹکل انجئیرانگ قرار دے چکے ہیں اور اس ضمن میں ایککالم نگار اس بابت بہت سے چشم کشا انکشافات کر چکے ہیں ۔
سنجیدہ حلقوں نے اس تمام صورتحال کے پس منظر میں یہ بھی کہا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مجموعی
احوال پر نگاہ ڈالیں تو یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں پر الزام تراشیاں غالبا اس خطے کے مزاج میں شامل ہیں تبھی تو ایک جانب بنگلہ دیش کے سابق حکمران حسین محمد ارشاد پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے تو اسی کے ساتھ ہی سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم خالدہ ضیا ء اور شیخ حسنیہ واجد بھی ایسے ہی الزامات کا شکار رہیں۔
دوسری طرف 1985 کے بعد راجیو گاندھی کی حکومت میں وزیر خارجہ مادھو سنگھ سولنکی پر بھی ’’بوفورس توپوں‘‘ میں بھاری کرپشن کے الزام لگے علاوہ ازیں 1999میں کارگل لڑائی میں واجپائی کے وزیر دفاع جارج فرنسیڈ پر بھی تابوتوں میں پیسے کھانے کا الزام لگا ۔اس کے علاوہ کانگرس کی سربراہ سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی ان دنوں بھی National Herald سکینڈل میں روز کی بنیاد پر پیشیاں بھگت رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ نرنید مودی ،ارب پتی بھارتی صنعت کار گوتم اڈانی اور مکیش امبانی پر بھی کرپشن کے بیشمار الزامات ہیں اور 2002میں ہونے والے گجرات کے مسلم کش فسادات میں سیدھے طو رپر ملوث مودی پر الزاما ت ہیں ۔
چند روز قبل ہی بھارتی عدالت نے موصوف کو ’’کلین چٹ ‘ ‘ دی ہے اس سارے معاملے کے تذکرے کا مقصد صرف یہ ہے کہ محض الزامات کی بنیاد پر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ۔دوسری طرف جس طرح عمران خان کی ’’خاتون خانہ‘‘ کی آڈیو سامنے آئی ہے اس نے ہر کسی کے ذہن میں بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ظاہری طور پر یہی لگتا ہے کہ پاک قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف یہ ایک بڑی سازش ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بابت پورے حقائق قوم کے سامنے لائیں جائیں کیوں کہ اپنی مبینہ گفتگو میں یہ ’’محترم خاتون‘‘ جس طور ڈاکٹر ارسلان کو ہدایات دی رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ اس سارے معاملے
کو غداری کے ساتھ گڈمڈ کر دیا جائے وہ اپنے آپ میں ایک افسوس ناک امر ہے ۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستانی عوام، حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کی روش اگرچہ مغربی اور بھارتی میڈیا کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے مگر وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی شدت آ گئی ہے اور ان اداروں کے خلاف ایسے ایسے افسانے تراشے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی پیر۔ درحقیقت پاکستان کے ازلی مخالفین گذشتہ 75 سالوں سے وطن عزیز کے خلاف منظم مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور اس کے پس پردہ نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے حکومتی طبقات ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے کچھ حلقے بھی اس مکروہ مہم میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد ان حلقوں کی بن آئی تھی، جب عالمی سطح پر پاکستان پر کافی دبائو بڑھ گیا تھا مگر زمینی حقیقت ازل سے یہی چلی آ رہی ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، سچ کو بہرحال سامنے آنا ہی ہوتا ہے، محض پراپیگنڈے کے زور پر کوئی فرد یا گروہ ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اسی آفاقی اصول کے تحت عالمی برادری پر بھی گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ادارے دہشتگردی کی سرپرستی نہیں کر رہے بلکہ اس برائی کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کے پس منظر میں قابض بھارتی فوج پلوامہ ٹو کی طرز پر کسی طرح کا نیا فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے لہذا اس بابت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ شہید برہان وانی کی برسی قریب ہے علاوہ ازیں کشمیر پر بھارتی قبضے کو بھی 3سال ہونے کو ہے ایسے میں عالمی برادری سے محض توقع ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ نہتے کشمیریوں کے خون کو رایگاں نہیں جانے دے گی
کپتان کادم توڑتا بیانیہ
Jul 04, 2022