لاہور (سپورٹس رپورٹر) پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹاپ آرڈر بیٹر شان مسعود نے کہاہے کہ میں نے کبھی خود کو کسی ایک فارمیٹ یا پوزیشن پر محدود نہیں کیا، پاکستان کیلئے کسی بھی پوزیشن پر کھیلنے کا موقع ملا تو بخوشی بیٹنگ کر وں گا ،پاکستان کیلئے یہ اچھا سائن ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹرز میں کافی سخت مقابلہ ہے ۔32 سالہ کرکٹر نے کہا کہ کائونٹی کرکٹ میں انہیں اپنا کھیل تسلسل کیساتھ بہتر کرنیکا موقع ملا۔پاکستان کیلئے یہ اچھا سائن ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹرز میں کافی سخت مقابلہ ہے، مجھے اس مقابلے میں شامل ہونا ایک بہتر پلیئر بنائے گا کیونکہ جب دیگر پلیئر ورلڈ کلاس پرفارمنس دیں گے تو مجھے بھی اپنا گیم بہتر کرنا ہوگا، اس بات کا بالکل بھی پریشر نہیں لیتے کہ پاکستان سے کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا کیونکہ ان کی نظر میں ایسے شکوے شکایت کرنا ناشکری ہوتی ہے۔ میں نے پچھلے دو سال میں بہت کچھ سیکھا ہے، خاص طور پر جب ٹیم سے باہر ہوا ، 8ماہ قبل جب بہن کا انتقال ہوا تو اس کے بعد زندگی کی حقیقت کھلی ۔ ان سب کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ کرکٹ ایک گیم ہے، اس کو انجوائے کریں زندگی میں کرکٹ سے بھی بڑھ کر چیزیں ہوتی ہیں، اس سے بڑا کیا موقع ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی ڈومسیٹک ٹیم یا کانٹی ٹیم یا قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ میں نے پوری زندگی تو کرکٹ نہیں کھیلنی اس لیے جو کرکٹ کھیل رہا ہوں، اس کو انجوائے کر رہا ہوں اور سلیکشن ہونے نہ ہونے کا پریشر نہیں لے رہا، جب وقت آئے گا تو ضرور پاکستان کیلئے بھی کھیلوں گا۔ کائونٹی کرکٹ میں ان کو اپنا کھیل بتدریج اور تسلسل کیساتھ بہتر کرنے کا موقع ملا، یہاں ایک پراسس سے گزرنے کا موقع ملا جس سے کھیل پہلے سے بہتر ہوا۔جب آپ رنز کے بارے میں نہیں سوچتے اور کوشش کرتے ہیں کہ لمبا کھیلیں تو رنز خود بخود بنتے ہیں اور ریکارڈز میں اضافہ ہوتا ہے ۔
میں نے کبھی خود کو ایک فارمیٹ کے لیے محدود نہیں سمجھا اور اگر کسی نے ان کو محدود نظر سے دیکھا تو انہوں نے اس کو ایک چیلنج لیا اور اس حد سے آگے کا پرفارم کرنیکا سوچا ۔ انہوں نے مانا کہ ماضی میں وہ اس انداز میں وائٹ بال کرکٹ نہیں کھیل رہے تھے جو کہ اس فارمیٹ کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے خوف کو جانچا اور دیکھا کہ کہاں بہتری ہوسکتی ہے اور اپنا کھیل بہتر کرنے کیلئے حل نکالنے کی کوشش کی۔ کافی لوگوں کیساتھ کام کیا ہے، ڈیپارٹمنٹ میں عمر رشید اور ندیم خان نے کافی اعتماد دیا، وائٹ بال کرکٹ بہتر کرنے کیلئے پھر پی ایس ایل کھیل کر سنگاکارا، معین علی، جیمز وینس، روی بوپارا، شین واٹسن یا پھر پاکستان کے پلیئر بابر اعظم یا کامران اکمل ان سب کو دیکھ کر بہت سیکھنے کو ملا۔ پی ایس ایل نے مجھے کافی مدد دی، انہوں نے اپنے ڈومیسٹک کوچز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ 'عبدالرحمان جیسے کوچ کیساتھ کام کرکے بھی مجھے بہت مدد ملی، اینڈی فلاور کیساتھ اور پھر گیری کرسٹن کیساتھ کام کیا جس نے میری بہت مددکی ۔ بھارت کیخلاف ڈربی شائر کی قیادت کے حوالے سے شان مسعود نے کہا کہ بھارتی ٹیم کیخلاف کھیلنا اچھا تجربہ رہا، پاکستام اور بھارت کا مقابلہ بین الاقوامی کرکٹ کا اثاثہ ہے لیکن جب آپ پاکستان سے نہیں کھیل رہے ہوتے تو بھارت کیخلاف کھیلنا مختلف تجربہ ہوتا ہے ۔