اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جاپان کے ساتھ سرمایہ کاری، تجارت، سیاحت اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ نجی شعبہ دوطرفہ تعلقات میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جاپان کے ساتھ تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی مدد پر جاپان کی حکومت کے شکر گزار ہیں، پاکستان جاپان کو افرادی قوت مہیا کرسکتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق جاپان کے سرکاری دورے کے موقع پر ٹوکیو میں جاپانی ہم منصب یوشیماسا حیاشی کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا جاپانی وزیر خارجہ کے ساتھ بہت نتیجہ خیز بات چیت کی کہ کس طرح دونوں ممالک ہمارے باہمی تعاون کو مزید گہرا کر سکتے ہیں۔ ہم نے تجارت، شمسی توانائی‘ سرمایہ کاری، انسانی وسائل کی ترقی اور تبادلے، آئی ٹی، سیاحت اور زراعت جیسے شعبوں میں اپنے باہمی فائدہ مند دو طرفہ تعاون کو مزید گہرا اور بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سولرائزیشن، ڈی سیلینیشن اور واٹر پیوریفیکیشن اور ہاو¿سنگ اور انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کے شعبوں میں زیادہ اثر رکھنے والے ٹارگٹڈ پروگراموں پر مل کر کام کرنے کے امکانات کو تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ہنرمند افرادی قوت کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے پاکستان میں جاپانی زبان کے لیے لینگویج سکل اسیسمنٹ ٹیسٹ کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے جاپان میں نوجوان پاکستانی ہنرمند انسانی وسائل کی درآمد اور ان کی زبان کی تربیت کو تعاون کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے۔ بات چیت میں پاکستان میں جاپانی اداروں کی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں پر بھی غور کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے مہمان نوازی پر جاپانی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا اور انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ٹوکیو میں جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا سے ملاقات کی۔ انہوں نے جاپانی وزیراعظم کے لئے پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماﺅں نے ملاقات میں مختلف شعبوں میں روابط اور تعاون کو مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے نانگا پربت سر کرنے والی پہلی پاکستانی خواتین کے نام تہینتی پیغام مےں کہا کہ نائلہ کیانی اور ثمینہ بیگ کو تاریخی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ دنیا کے مشکل پہاڑوں میں سے ایک نانگا پربت کو پاکستانی خواتین کا سر کرنا پوری قوم کے لیے باعث مسرت و فخر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور جاپان ایک مضبوط اور موثر انفراسٹرکچر نیٹ ورک تشکیل دے کر علاقائی رابطوں کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے میں تجارتی حجم کو بڑھایا جاسکتا ہے، پاکستان اور جاپان ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال افغانستان میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک انسٹی ٹیوٹ میں ”ایشیائی تناظر میں پاکستان اور جاپان“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور جاپان براعظم ایشیا کے مختلف کونوں میں واقع ہیں تاہم خطے کے لیے ان کے نقطہ نظر اور وژن میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر سنگین اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کے پاس سرد جنگ کی طرز کی بلاک سیاست کے لیے وقت نہیں ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر اپنے سٹریٹجک محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی رابطوں کو فروغ اور شرح نمو کو بڑھاسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بہتر رابطے کے لیے اس وژن کا ایک اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ سی پیک اور دیگر چینی منصوبوں کے نتیجے میں پاکستان کے صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبوں میں پیدا ہونے والے مواقع کسی ایک ملک کے لیے مخصوص نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جاپانی فرموں کو پاکستان میں کامیابی اور منافع کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ پاکستان کے معاشی مقاصد کے حصول کے لیے بلیو اکانومی کی ترقی بہت ضروری ہے۔ جب تک جنوبی ایشیاءمیں دیرپا امن و استحکام برقرار نہیں رہے گا، علاقائی روابط اور تجارت کی خواہشات پوری نہیں ہوں گی۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک خطے کا بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر بات چیت کے ذریعے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا میں امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں ہے۔ بھارت مذہبی جنون کی لپیٹ میں ہے جس نے بات چیت اور سفارت کاری کے لیے جگہ بند کر دی ہے۔ وزیر خارجہ نے ایشیائی ترقیاتی بنک کی بھی تعریف کی جس نے ایشیائی ممالک کی ترقی اور مالیاتی اداروں کو بنانے میں قابل تعریف کردار ادا کیا۔ کیا یہ بات حیرت انگیز ہے بھارتی مظالم پر عالمی برادری خاموش ہے۔