اہل نظر کی ایک اور بشارت غرق آب کثیف ہوئی۔ یہ کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے بلکہ ہو چکا ہے اور بس اعلان باقی ہے۔ پاکستانی عوام گندم کے ایک ایک دانے کو ترسیں گے۔ یہ بشارت پچھلے ہی ہفتے جاری کی گئی تھی اور دو ہی دن بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا اور اس دوران سعودی عرب، امارات، قطر اور چین کی طرف سے ڈالروں کے ٹرالر پاکستان کو دئیے جانے کے اعلان بھی ہو گئے۔ سی پیک پر کام بھی بحال ہو گیا، سعودی عرب نے بلوچستان میں ریفائنری لگانے کا پلان جو ’عمرانی دور، مطلب ، اہل نظر کے مرشد کے زمانے میں برف خانے میں ڈال دیا تھا، پھر سے نکال لیا۔ اور بھی بہت کچھ ہوا۔ اہل نظر کی بشارتوں کا ہی دیوالیہ پیٹ دیا۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اہل نظر کی تازہ تازہ پامال ہوئی بشارت فی نفسہہ ”تازہ“ نہیں ہے، یہ سوا سال پرانی ہے، نظریہ ضرورت کے تحت اہل نظر ہر بار اس میں ایک مہینے کی توسیع کر دیتے تھے، بالکل نالہ لئی کے سجادہ نشین کی طرح کہ اگلے 60 دن اہم ہیں اور پچاسویں دن یہ توسیعی بیان کہ اگلے 50 دن اہم ہیں اور 45 ویں دن پھر ایک اور توسیعی بیان کہ اگلا مہینہ فیصلہ کن ہے اور آخر میں دوتالہ دے کر یہ بیاں کہ قصہ ختم، امپورٹڈ حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے۔ اب تو خیر ، وہ واقعی چند دنوں کی مہمان ہے لیکن نالہ لئی کے سجادہ نشین نے یہ بیان گزشتہ برس جون میں دیا تھا۔
نہ صرف یہ کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا بلکہ چین سعودی عرب قطر اور امارات کی عنایات کے باعث عالمی منڈی میں پاکستان نے اعتبار کے قدم بھی جما لئے۔ اہلِ نظر کے لیے مشورہ ہے کہ پہلی فرصت میں شاہ عالمی یا لبرٹی جا کر عینک تبدیل کرائیں یا پھر ہمدرد کا نرگسی سرمہ تین عدد خریدیں، مرض مزمّن ہو چکا ہے، ایک شیشی سے کام نہیں چلے گا۔
___
اہل نظر کی پچھلی بشارتیں تو یوں پامال ہوئیں جیسے ہلاکو خاں کے گھوڑوں نے بغداد کو پامال کیا تھا۔ یہ بشارتیں مارچ میں پاکستان کی مکمل بربادی کی تھیں۔ اہلِ نظر نے بتایا ہے کہ آسمانوں پر فیصلے لکھے جا چکے، اب ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی، معافی اور توبہ کا در بند ہو گیا، اب گھروں کے دروازے بند کر کے تباہی کا انتظار کرو۔ تم نے قدر عمرانی نہیں کی، اب جبر آسمانی تمہیں نہیں چھوڑے گا۔
محققین حضرات بعدازاں خبر لائے کہ آسمانوں والی بات بالکل درست تھی لیکن یہ بنی گالہ اور زمان پارک کے آسمان تھے، آسمانِ ٹیلی فام مراد ہرگز نہیں تھا۔
___
گئے زمانوں بلکہ بہت ہی زیادہ گئے زمانوں میں ایک گیت کسی فلم کا بہت مقبول ہوا تھا۔ بول تھے، چاندنی راتیں، تاروں سے کریں باتیں۔
کچھ اہل سخن معترض ہوئے کہ چاندنی راتوں میں تاروں سے باتیں کیا معنے؟۔ چاندنی رات میں تو تارے ہوتے ہی کہاں ہیں کہ کوئی ان سے مخاطب ہو۔
اعتراض معقول تھا لیکن چلا نہیں، غیر معقول لیکن چل گیا اور آج اتنے زمانوں کے بعد بھی کہیں نہ کہیں گونج اٹھتا ہے۔ وہی بات ہو گئی کہ
بوٹ ڈاسن نے بتایا، میں نے اک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
گیت کے حامی چاہتے تو اعتراض کا جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ جواب یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں تارے اپنی جگہ بدستور موجود ہوتے ہیں البتہ نظر نہیں آتے لہٰذا بات کی جا سکتی ہے۔ دوسرا جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ چلئے ، غائبانہ بات کی گنجائش بھی تو ہے۔ ویسے تاروں سے بات کرنا محض محاورہ ہے، سچ مچ کی بات اس لئے نہیں ہو سکتی کہ تاروں کے کان ہی نہیں ہوتے البتہ دیواروں کے کان ضرور ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے آج کل شہزادہ جان عالم اپنے بھائیں بھائیں اور سائیں سائیں کرتے راج محل میں دیواروں سے باتیں کرتے ہیں۔ اکا دکا آنے جانے والے بتاتے ہیں کہ دیواروں کی طرف منہ کر کے انہیں حقیقی آزادی کا درس دیا کرتے ہیں، انہیں خوف کی زنجیریں توڑنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اس مشورہ کے دوران کوئی پتہ بھی کھڑک جائے تو بھاگ کر اپنے بم پروف ، بلٹ پروف خواب کدے میں روپوش ہو جاتے ہیں اور پھر اگلے روز نمودار ہو کر نئے سرے سے دیواروں کو ہم سخن بنانے کی مشق فرماتے ہیں۔
___
اگلے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے شہزادہ صاحب کی ”بالٹی پوشی“ کو اپنے طنز و تنقید کا نشانہ بنایا۔ بالکل بلاجواز!
وزیر اظعم بتائیں، سر پر بالٹی اوڑھنا کس قانون کے خلاف ہے، کون سا آئین اس کی ممانعت کرتا ہے۔ شریعت کے کس حکم کی خلاف ورزی ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر تنقید کا مطلب۔ رحونیات سے نابلد حضرات نہیں سمجھتے کہ بالٹی رحونیات کا ایک استعارہ ہے، ایک رمز ہے اور ایک تمثیل ہے۔ ایک وقت تھا جب حالی نے شہر میں سب سے الگ دکان کھولی تھی تو لوگ اسی طرح معترض ہوئے تھے لیکن پھر یہ دکان خوب چلی، دکان کا چلن بھی چل نکلا اور دکان حالی کی طرز پر شعروسخن کی منڈیاں سج گئیں جن کو دبستانِ حالی کا نام دیا گیا۔ جان لو، کل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر دلیر سورما بالٹی پہن کر نکلے، بالٹی پہننا بہادروں کا شیوہ ہو جائے اور دبستان بالٹی کے ڈنکے بجنے لگیں۔
___
جیل حکام نے اپنے اسیر پرویز الٰہی کا شافی و کافی طبّی معائنہ کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ موصوف کو ہسپتال بھجوانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کی صحت قابلِ رشک حد تک اچھی ہے اور وہ خوب ھٹے کٹّے ہیں۔ ھٹّے کی حد تک تو ٹھیک، یہ کٹّے کا لاحقہ لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ پرویز الٰہی کو جنہوں نے دیکھ رکھا ہے وہ اس لاحقے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ شاید جیل حکام کا خیال فواد چودھری کی طرف چلا گیا ہو حالانکہ وہ جیل میں نہیں ہیں۔ کل کو نظر زنداں ہو جائیں تو الگ بات ہے۔ تمام زندگی واجد علی شاہ کی طرح شب سمور گزارنے کے بعد پرویز الٰہی کو جیل کی شب تنور کاھے کو بھلی لگی ہو گی۔ ناچار ہسپتال جانے کا سوچا ہو گا کہ وہاں اے سی بھی ہو گا اور نرسیں بھی اور کیا پتہ شہزادہ جان عالم وہ ٹیکہ بھی بھجوا دیں جس کے لگتے ہی نرسیں حوریں نظر آنے لگتی ہیں۔ پھر تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، جیل والوں کی طرف سے ھٹّے کٹّے والے سرٹیفکیٹ نے سنہرے خوابوں کا سرو ناش ہی کر دیا۔