بڑی عید پر میڈیا نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کو بڑی خبر کے طور پر لیا۔ بڑی عید کی بڑی خبر،اکثر میڈیا کی لیڈ سٹوری تھی حکمرانوں نے اس معاہدے کو اپنی بڑی کامیابی گردانا اور اس پر خوب شادیانے بجائے گئے۔ حکمرانوں کا اس پر خوش ہونا بنتا بھی تھا۔ اگر کسی جوڑے کے ہاں دیر سے اولاد ہو تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ بقول وزیر اعظم، آئی ایم ایف نے قرض کے لیے ان سے ناک سے لکیریں نکلوائی ہیں۔ چودہ ماہ میں حکومت نے ہرممکن جتن کیے کہ انھیں آئی ایم ایف سے قرض مل جائے۔ اس کے لیے پوری حکومت باجماعت منتیں ترلے کرتی رہی۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط منظور کر کے قوم کو مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا۔ وزیر خزانہ تبدیل کیا۔ اسحاق ڈار نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ یہاں تک کہ وہ اس کیفیت میں چڑ چڑے ہو گئے۔ میڈیا کا سامنا کرنے سے وہ ویسے ہی گھبرانے لگے، آئی ایم ایف سے مذاکرات ان کی چھیڑ بن گئی تھی۔ وہ اس قدر حالات سے پریشان تھے کہ ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر انھوں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ وہ کوئی راستہ نہ ملنے پر پیچ وخم کھاتے دکھائی دیتے تھے۔
وزیر خارجہ نے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پروگرام حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ آرمی چیف نے بھی اپنے تئیں کوشش کی۔ آخر کار وزیراعظم کی براہ راست گفتگو نے راستہ ہموار کیا اور پاکستان کو نو ماہ کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر ملنے کا معاہدہ طے ہو گیا۔ اتنی مشکل سے ملنے والے قرض پر خوشی منانا تو بنتا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ عید کی چھٹیوں میں ایک چھٹی کا اضافہ کر دیتی۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی خوشی قومی سطح پر منائی جاتی شکرانے کے طور پر نوافل کی ادائیگی بھی بنتی تھی۔ حکومت کی کوششوں پر مبنی ایک باب نصاب تعلیم میں بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ نئی نسل کو علم ہو سکے کہ کتنی جدوجہد کرکے پاکستان کے حکمران معاملات چلانے کے لیے قرض لیا کرتے تھے۔ بے شک اس میں ماضی کے حکمرانوں کی بے تدبیری کو بھی حصہ بنا لیا جائے جن کی وجہ سے پاکستان ان حالات سے دوچار ہوا۔
بہرحال اب جب قرض مل رہا ہے تو خوشیاں منانا تو بنتا ہے لیکن یہ خوشیاں حکمرانوں کو ہی زیب دیتی ہیں۔ اس قرض کے حصول کے لیے عید قربان پر جو عوام کو قربان کر دیا گیا ہے۔ اس کا عوام کو چند دنوں بعد پتا لگنا شروع ہو جائے گا، جب سوا چار سو ارب کے نئے ٹیکسوں کی وصولیاں شروع ہوں گی تو لگ پتا جائے گا۔ اس قرض کی پاداش میں چیئرمین سینیٹ اور 80 رکنی کابینہ کی مراعات میں اضافہ کو تو یقینی بنایا جا سکے گا لیکن عوام نے جب اگلے مہینے بجلی کے یونٹ میں 4روپے اضافہ کے ساتھ بل ادا کیا اور گیس کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ کے ساتھ بل آیا تو پھر پتا چلے گا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی عوام کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کھاد، گھی اور درجنوں روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر پتا چلے گا کہ اس قرص پر خوشیاں منانی چاہئیں یا ماتم کرنا چاہیے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان وقتی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے لیکن یقین کریں پاکستان کے عوام کب سے ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ قربانی دینے والے عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ قرض کہاں خرچ ہونا ہے۔ روڈ میپ کیا ہے۔ اگر تو اس قرض سے جمود کا شکار معیشت کی بحالی کے لیے خرچ کیا جانا مقصود ہے تو اچھی بات ہے لیکن اگر اس کو سود کی ادائیگی اور اداروں کے خسارے کی نذر کر دینا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے پہلے اپنے اداروں کے خسارے پر قابو پائیں۔ دراصل یہ سارے ارینجمنٹ وقت گزاری اور ڈنگ ٹپانے کے لیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کئی قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے، سیاسی ابتری سے لے کر معاشی ناہمواری تک اور قانون کی عمل داری سے لے کر امن و امان کی بگڑتی صورتحال تک۔ دہشت گردی کا سر اٹھاتا عفریت اور دشمن کی چالبازیاں پاکستان ہر لحاظ سے گھیرے میں آ چکا ہے۔
ان حالات سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں داخلی انتشار کو ختم کرنا ہے، پھر سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، سر اٹھاتی دہشت گردی کو کچلنا از حد ضروری ہے۔ سرمایہ دار، صنعت کار اور تاجروں کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کو اعتماد میں لینا بہت ہی ضروری ہے ورنہ ایسے قرض لے کر ریت پر دیسی گھی انڈیلنے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ عوام کو تو یہ بھی واضح نہیں کہ حکومت جو کہ اگلے ماہ اپنی مدت پوری کر رہی ہے اس پر عمل درآمد اس نے کرنا ہے اور کیا وہ توسیع لے رہی ہے یا پھر موجودہ حکومت نگرانوں کے لیے سارا کچھ چھوڑ کر جا رہی ہے یا پھر انتخابات کی صورت میں نئی آنے والی حکومت نے کچھ کرنا ہے۔ اس غیر یقینی کی صورتحال میں ابہام سب سے زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ عوام پر واضح کرے کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔ انھوں نے کتنی دیر تک قربانی کے عمل سے گزرنا ہے۔