یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنیملک میں قائم دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم نہیں کریں گے اربوں روپے خرچ کرنے ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ہم ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہی ہو سکتے۔ ایران تا افغانستان ایک طرف اور دوسری طرف ہندوستان کا طویل بارڈر آج بھی دہشت گردوں کی آمد و رفت کا ذریعہ ہے جہاں درجنوں خفیہ راستے موجود ہیں۔
بدقسمتی سے ہم تو آج تک ان تینوں ممالک سے ملنے والی سرحدوں سے سمگلنگ کا مکروہ دھندا ختم نہیں کرا سکے۔ گدھو، گھوڑوں، خچروں پر ہی نہیں بڑے بڑے ٹرکوں، ٹرالوں، ڈالوں اور گاڑیوں میں آج بھی الیکٹرانکس سامان ہی نہیں ٹرکوں، ٹریکٹروں، ٹرالوں کے ٹائر، پٹرول سے بھرے کین، اسلحہ اور منشیات آسانی سے سمگل ہو کر آرہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان سے مویشی، آٹا، چاول، چینی، گھی اور ڈالرز افغانستان اور ایران جا رہے ہیں۔ انڈیا سے پان، چھالیہ، گٹکا، چاندی، کپڑے اور کاسمیٹک کی سمگلنگ عام ہے۔
یہ سب کچھ جو لوگ کر رہے ہیں کیا وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر یہ کام کر رہے ہیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں، سرحدی حکام کی ملی بھگت سے ایسا ہو رہا ہے تو پھر دشوار گزار راستوں سے دہشت گردوں کی آمد و رفت کون روک سکتا ہے۔ ان کو دونوں طرف سے سہولت کاروں کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ م
سلکی بنیاد پر، لسانی بنیاد پر اور قومیت کے نام پر انہیں آسانی سے ان کو لانچ کرنے والے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے عناصر ان کو اپنے مکروہ مقاصد میں استعمال کرنے والے عناصر، مذہب، قومیت اور زبان کے نام پر اپنے علیحدہ تشخص کا جھوٹا خواب دکھا کر نوجوانوں کی نہایت مہارت سے برین واشنگ کرتے ہیں انہیں جنت، آزادی اور قربانی کا ایسا من گھڑت خواب دکھاتے ہیں کہ یہ معصوم نوجوان اور اب تو خواتین بھی ان کے آلہ کار بن کر خودکش دھماکوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔
سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن اس ملک کے محافظوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ جانتے ہیں ہماری مسلح افواج وہ آہنی دیوار ہے جو اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ یہ وہ آہنی دیوار ہے جو دفاع وطن کیلئے ہر باطل سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزدل دشمن چھپ چھپ کر ہمارے محافظوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں سرحد پار سے دہشت گردی کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے آسانی سے آجاتے ہیں۔ یہاں انہیں محفوظ ٹھکانوں کی وسیع سہولت حاصل ہے۔ دشوار گزار علاقوں میں مادر وطن کی حفاظت کرنے والے ہمار ے جوان ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں تو بدبخت ان پر گھات لگا کر حملے کرتے ہیں اسی طرح شہروں میں جہاں ان سانپوں کی پرورش کی جاتی ہے، انہیں پالا جاتا ہے اور ان کوتخریب کاری اورخود کش حملوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلاتفریق مسلک و قومیت، زبان و نسل ایسے افراد یا جماعتوں کو بے نقاب کیا جائے انہیں ایسے دہشت گرد عناصر کی سرپرستی سے روکا جائے۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے اسلحہ فراہم کرنے والے، مالی معاونت کرنے والے کسی بھی صورت معافی کے قابل نہیں ایسے ملک دشمن عناصر کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہوگا۔ انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا اور سخت سزا دینا ہوگی۔
ملک بھر میں غیرقانونی یا قانونی طریقے سے موجود افغان مہاجرین ہوں یا کو ی اور اب وقت آگیا ہے کہ انہیں ملک بدر کیا جائے۔
افغانستان کے حالات بہتر ہو چکے ہیں وہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہے جو آسانی سے واپس آنے والے اپنے شہریوں کو خوش آمدید کہے گی۔ یہاں رہنے والے افغان مہاجر خاصے آسودہ حال ہیں یہ اپنے ملک میں جا کر وہاں کے معاشی استحکام میں بھی بھرپور حصہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ افغان باشندے جنہیں پاکستان سے تکلیف اور شکایات ہیں حالانکہ وہ یہاں پلے بڑھے اور پیدا ہوئے ہیں مگر اس احسان کو ماننے کو تیار نہیں وہ بھی واپس جا کر اپنے پسندیدہ وطن افغانستان میں اطمینان کی پْرمسرت زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ جن افغان باشندوں نے غیر قانونی طور پر پاکستان کی شہریت لی ہے، یہاں جائیدادیں بنائی ہیں اگر وہ دل و جان سے ایمانداری سے یہاں کے پْرامن شہری محب وطن پاکستانی بن کر رہنا چاہیں تو ان سے تعرض نہ کیا جائے ورنہ سب کے لئے بارڈر کھول کر انہیں واپس افغانستان یا جہاں وہ جانا چاہتے ہیں بھیج دیا جائے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں سب سے زیادہ یہی غیر قانونی تارکین وطن ملوث ہوتے ہیں اس کے بعد قوم پرستوں کا نمبر آتا ہے۔ اگر بلوچستان میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کی جائے وہاں کے نااہل حکمرانوں کو صرف اور صرف بلوچستان کے صوبے اور عوام کی ترقی کا مشن سونپا جائے۔ گمراہ جوانوں کو روزگار عوام کو تعلیم، صحت و زندگی کی دیگر سہولتیں میسر ہو تو کوئی بھی دہشت گردی کی راہ نہیں اپنائے گا…!!!!
٭…٭…٭