رمضان المبارک میں مجھے لندن سے سہیل منظور بھائی کی کال آئی تھی کہ فاروق بھائی ہمارے پاس لندن کا چکر لگا جائو۔اس بار میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دوں۔ انکار کی بھی گنجائش نہیں تھی۔سہیل منظور کافی عرصے سے لندن میں رہائش پذیر ہے۔ اب تو برطانوی شہریت بھی حاصل کر لی ہے اور وہاں پر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ماشاء اللہ محنتی تو ہیں اور اللہ پاک نے خرچ کرنے کا حوصلہ بھی دیا ہے۔ خیر یہ باتیں پھر کبھی۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مجھے میر پور آزاد کشمیر کی اپوائنٹمنٹ ملی تو میں نے ایک دن پہلے منگلا کینٹ میں رات بسر کی۔ اگلی صبح ہم لوگ آٹھ بجے میر پور جیری کے آفس پہنچ گئے وہاں سے فارغ ہوکر ہم سیدھے لاہور واپس آگئے۔عید سے ایک دن پہلے ہمیں ایک ای میل موصول ہوئی جس میں ہمارے لئے یہ اطلاع تھی کہ آپ کو پانچ سال کا برطانیہ کا ویزہ مل گیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ میری بیٹیوں امل فاروق رانااور مومل فاروق رانا کے ویزے کا بھی تھا۔ پھر اْن کے ڈاکومنٹس تیار کئے۔ جب اْن کے ویزے موصول ہو گئے تو یہ کیا، میں تو اپنی زندگی کی بہت بڑی آزمائش میں آگیا۔آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آزمائش کیسی ! تو جناب میرا خیال تھا کہ شاید امل اور مومل کا ویزہ نہ لگے کیوں کہ میں نے زندگی میں کبھی باہر سیٹل ہونے کا نہیں سوچا تھا۔بس ایک خواہش تھی کہ اللہ پاک کی بنائی ہوئی دنیا دیکھوں۔ بس اس حد تک ملک سے باہر جانے کا شوق تھا۔ جب پوری فیملی کے ویزے لگ گئے سب دوستوں کو یہ خبر مل گئی تو سب کے اپنے اپنے مشورے تھے لیکن میں اِن دِنوں کافی مشکل میں تھا کہ اب کیا کروں۔ خیر اب لندن کے سفر کا ارادہ ہو چکا تھا اور یہ خبر تھی جنگل میں آگ کی طرح۔ میرے دوستوں سے لیکر پورے خاندان میں پھیل گئی۔ جن دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارا اْن کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں محبت میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔سب سے بڑھ کر جس طرح استاد محترم ،ہم صحافیوں کے امام محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے میرے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا اور عزت سے نوازا یہ خاکسار کیلئے کسی تمغہ سے کم نہ تھا۔اْس دعوت میں سجاد میر ،حفیظ اللہ نیازی،سعید آسی،سلمان غنی ، ایثار رانا، چوہدری خادم حسین،نصیرالحق ہاشمی،محمد نوشاد احمد، محمد فاروق کے علاوہ میرے فیملی کے لوگ بھی شامل تھے۔ اِن سب دوستوں نے جس طرح دعائوں کے ساتھ رخصت کیا وہ لمحات میرے لئے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ میرے لئے اِن اساتذہ سے دوری برداشت کرنابہت مشکل تھا کیونکہ میں اِن کے پاس ہفتے میں ایک دو بار ملاقات کے لئے ضرور حا ضر ہوتا تھا کیونکہ مجھے انکی بیٹھک میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا۔
میرابیرون ملک کا پہلا سفرتھا۔گرمی کا جب موسم آتا تو دِل میں آتا کہ اپنا بیگ اْٹھائوں پہاڑوں کی طرف نکل جائوں جہاں اْونچے پہاڑ ہوں ، شور نہ ہو جہاں میرے دل کو سکون آئے جدھر بھی دیکھوں اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آئے۔ ٹھنڈے پانی میں اپنے پائوں رکھ کرلمبی نیند سوجائوں جس سے پورے جسم کی تھکن دور ہو جائے اور روح کو سکون آجائے۔ دریا کی پر جوش لہریں جب میرے کانوں میں سنائی دیں تو بے چینی دور ہوجائے۔ جب گھاس پر ننگے پائوں چلوں دِل و دماغ کو وہ تازگی ملے جس سے محسوس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے میری زندگی کا سارا وزن اْتار دیا ہے۔ لیکن انسان کے بس میں تو صرف سوچنا ہے اسباب تو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔جس چیز کے بارے میںانسان نے سوچا بھی نہیں ہوتا وہ ہو جاتاہے۔میں ہرسال موسم گرما میں پہاڑی علاقوں میں جاتا تھا لیکن اب زندگی نے ایک بڑے سفر کے لئے تیار کر دیا تھاجس کا شاید کبھی سوچا نہیں تھا۔
میرے لئے اب اگلا مرحلہ بہت کٹھن تھا کیونکہ میراآفس سے واپسی کے بعد زیادہ وقت اپنے والدین کے ساتھ گزرتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا والدین کے بغیر رہنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اسی طرح والد اور والدہ کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ والدین سے دوری یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے جسم سے روح نکل جائے اور بس جسم دنیا کے لئے ہاتھ پیر مارتا پھرے۔ والد ین کی اجازت کے بغیر نا تو میں کبھی کہیں جاسکتا تھا نا جا سکتا ہوں۔ویزہ پراسس بھی اْنکی اجازت اور اْنکے حکم پر ہی شروع کیا تھا۔ والدین کا حوصلہ دیکھ کر میرے دِل کو بھی سکون تھا کہ وہ بالکل مطمئین ہیں۔یہاں پر میرے ذہن میں ایک شعر امڈ آیاہے۔
تم سے ملتی جلتی میں آواز کہاں سے لائوں گا
تاج محل بن جائے اگر ممتاز کہاں سے لائوں گا
……………………(جاری)