کہنے کو تو آئی ایم ایف کے ملکی اور قومی ہزیمتوں سے لبریز تین ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج پر عالی دماغوں اور حکومتی شاہکاروں کی طرف سے ہونیوالے خوشی و اطمینان کے اظہار پر بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اور دہشت گردی کا پھیلتا اور دوبارہ قدم جماتا عفریت بھی ہماری حکومتی‘ ادارہ جاتی اتھارٹی کے تناظر میں اور گورننس کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے فکرمندی کے اظہار والا موضوعِ بحث بن سکتا ہے مگر مجھے آج نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی بے بسی اور بے عملی پر بات کرنی ہے اور اسکی ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہوئی کہ سویڈن میں دو عراقی نڑاد سویڈش ملعونوں کو عدالتی سرپرستی میں مسلمانوں کے مقدس مذہبی تہوار عیدالاضحی کے روز مسجد کے سامنے الہامی مقدس کتاب قرآن مجید کو نذرآتش کرنے کی جرأت ہوئی اور اس دانستہ گستاخی کو اظہار رائے کی آزادی کے کھاتے میں ڈال کر اسے سویڈش قوانین کا تحفظ دینے کی کوشش کی گئی۔ دنیا بھر میں اس دریدہ دہنی پر احتجاج ہو رہا ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے قرآن مجید کو سینے سے لگا کر اور اسے بوسہ دیکر اپنے ملک میں اسکی حرمت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے‘ عراق میں ایک انٹرنیشنل فٹ بال میچ کے دوران عراقی ٹیم نے قرآن مجید ہاتھ میں تھام کر اسے بوسہ دیتے ہوئے پوری گرائونڈ کا چکر لگایا ہے اور سویڈن میں ملعونوں کی جانب سے قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے کے شوریدہ سری والے فعل کی مذمت کی ہے اور اٹھاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی اپنے ہنگامی اجلاس میں اقوام عالم اور انکی قیادتوں پر زور دیا ہے کہ وہ قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے مذموم اقدامات روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ او آئی سی کے اجلاس میں شریک پاکستانی مندوب نے سویڈن میں رونما ہونیوالے اس واقعہ کو قابل نفرت اور گھنائونی حرکت قرار دیا اور ایران نے سویڈن کیلئے تعینات اپنے نئے سفیر کو وہاں جانے سے روک دیا مگر نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کے کانوں پر توہین قرآن و مذہب کی اس قبیح حرکت پر جوں تک نہیں رینگی۔
دو سال قبل ہی تو فرانس کے صدر میکرون کی شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دیدہ دلیری والی گستاخی پر مبنی خاکے خود آویزاں کرانے والی حرکت پر مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ پوری عالمی برادری میں بھی سخت اضطراب اور غصے کی فضا پیدا ہوئی تھی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان کی پیش کردہ ایک قرارداد کی متفقہ منظوری دی اور ہر سال اسلامو فوبیا کیخلاف دن منانے کا بھی اعلان کیا۔ مقصد اس کا بالخصوص مغربی دنیا میں فیشن کی طرح پھیلنے اور اسے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں جسٹیفائی کرنیوالے اسلامو فوبیا کے سدباب کا تھا مگر اس نمائندہ عالمی ادارے نے سویڈن کے سفاکانہ واقعہ پر دو سال قبل منظور کی گئی اپنی قرارداد کا بھرم قائم رکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ پوری دنیا میں اضطراب کی کیفیت ہے۔ مسلم دنیا سخت غم و غصہ میں ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی و علمبردار غیرمسلم ممالک بھی مسلمانوں کو مشتعل کرنیوالی اس حرکت پر پریشان ہیں اور اسے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی تاراج کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں مگر اس عالمی ادارے کی جبینِ نیاز پر غم و غصے کی ہلکی سی رمق بھی دوڑتی نظر نہیں آئی جس کا قیام ہی دنیا کی ریاستوں کو امن و سلامتی کے ساتھ جوڑے رکھنے اور انہیں باہمی جنگ و جدل سے روکنے کے عملی اقدامات اٹھانے کیلئے عمل میں لایا گیا ہے۔
اس نمائندہ عالمی ادارے کے بارے میں میرے پہلے بھی یہی خدشات و تحفظات رہے ہیں جس کا میں ان سطور میں متعدد مواقع پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ اس ادارے کی تشکیل و ترتیب اور کارکردگی اسکی اپنی نمائندہ اتھارٹی تسلیم کرانے والے کسی پہلو کی ہرگز عکاسی نہیں کرتی اس لئے جلد یا بدیر اقوام متحدہ کا انجام بھی لیگ آف دی نیشنز والا ہی ہوگا جس کی بے عملی اور غیرموثر کردار کے باعث ہی اس کرۂ ارض پر دو عالمی جنگوں کی نوبت آئی چنانچہ یہ نام نہاد نمائندہ عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی جس کے بعد ایک ایسی نمائندہ عالمی تنظیم کی تشکیل کی ضرورت محسوس ہوئی جو لیگ آف دی نیشنز کی بے عملی ار اسکی غلطیوں کو پیش نظر رکھ کر اقوام عالم کو پرامن بقائے باہمی کے زریں اصولوں کے ساتھ جوڑ سکے اور علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی ضامن بن سکے۔ اس مقصد کیلئے دنیا کے پچاس ممالک کے سرکردہ نمائندگان کا 25 اپریل 1945ء کو امریکی شہر سان فرانسسکو میں اکٹھ ہوا اور ٹھوس حکمت عملی اور جامع پالیسی طے کرنے کیلئے دنیا بھر کے مؤثر نمائندگان کی یہ بیٹھک 26 جون 1945ء تک جاری رہی۔ بالآخر مجوزہ نئے عالمی ادارے کا جامع منشور اور چارٹر تیار کرکے اقوام متحدہ کے نام سے نئے عالمی ادارے کی 24 اکتوبر 1945ء کو بنیاد رکھ دی گئی۔ اسکے چارٹر کو یواین چارٹر کا نام دیا گیا جو ابھی تک ایک مستند عالمی دستاویز کی شکل میں موجود ہے اور اسکے تحت ہی اقوام متحدہ کے رکن ممالک جن کی تعداد اب اڑھائی سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے‘ اپنے باہمی یا علاقائی تنازعات اقوام متحدہ کے ذریعے طے کرانے کے پابند ہیں۔
اقوام متحدہ کا سب سے اہم حصہ اسکی سلامتی کونسل ہے جس کے رکن پندرہ ممالک میں سے پانچ ممالک امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ فرانس اور روس کو اسکے مستقل ارکان کی حیثیت سے ویٹو کا اختیار حاصل ہے جبکہ باقی دس ارکان کا ہر دو سال بعد چنائو عمل میں آتا ہے مگر اس نمائندہ عالمی ادارے کی اصل اتھارٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہی انجوائے کرتے ہیں جو اپنے تئیں دنیا کے طاقت ور ممالک ہونے کے زعم میں اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہی کوشش کرتے ہیں اور ویٹو کا حق استعمال کرکے اپنے کسی مفاد کیخلاف کسی قرارداد کی منظوری کی نوبت نہیں آنے دیتے‘ چاہے وہ قرارداد علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت ہی کیوں نہ بن رہی ہو۔ اس طرح یہ عالمی ادارہ ان پانچ ممالک کی عملاً رکھیل بن کر رہ گیا ہے۔ ان پانچ ممالک میں بھی سب سے موثر کردار دنیا کو ڈکٹیٹ کرنے کی خواہش رکھنے والے امریکہ کا ہے جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنا بھی اپنا حق گردان لیا ہے اور اسی طرح اپنی سلامتی کی خاطر کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی سے کھیلنا بھی وہ اپنا قانونی حق تصور کر چکا ہے۔
امریکہ کے اسی طرز عمل کے باعث کشمیر و فلسطین سمیت کوئی علاقائی اور عالمی تنازعہ اب تک سلجھ نہیں پایا جبکہ بھارت اور اسرائیل کو عملاً امریکی سرپرستی حاصل ہونے کے باعث یہ دونوں ممالک نہ صرف کشمیر و فلسطین کے تنازعات کے حوالے سے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ انکی پاکستان اور فلسطین کیخلاف اشتعال انگیزیاں اور خونریزیاں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کرچکی ہیں۔ جن مغربی‘ وسطی ایشیائی اور برصغیر کے ممالک کی جانب سے اپنے مقاصد کے تحت توہین قرآن و مذہب اور شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی صورت میں اسلامو فوبیا کو پھیلنے کی اجازت حاصل ہوئی‘ انکے سر پر بھی امریکہ ہی کا دست شفقت ہے جو اپنے مسلم دشمن الحادی ایجنڈے کے تحت امن و آشتی کے ضامن دینِ اسلام کا ناطہ دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر مسلم دنیا کو اقوام عالم میں تنہاء کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی ڈوریاں بھی بالخصوص امریکہ کے ہاتھ میں ہیں اس لئے وہ کشمیر و فلسطین کے تنازعات کے حل اور اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔
میری آج کی فکرمندی یہی ہے کہ مغربی دنیا کی الحادی قوتوں کی جانب سے ساری سازشیں تو درحقیقت مسلم دنیا کو دبانے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نظر آتا احیاء روکنے کیلئے ہو رہی ہیں جبکہ ان سازشوں کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ کا دھیلے کا بھی کردار نہیں۔ پھر کیوں نہ ان سازشوں کیخلاف مسلم دنیا ہی متحد ہو جائے۔ آپ او آئی سی کو محض گفتند‘ نشستند‘ برخاستند والا پلیٹ فارم بنانے کے بجائے حقیقی عملیت پسندی کی طرف آئیں اور دفاع و اقتصادیات سمیت ہر معاملے میں کامل اتحاد کے ذریعے الحادی قوتوں کے عزائم خاک میں ملادیں۔ اقوام متحدہ کو بالآخر اپنے انجام کو پہنچنا ہے‘ اس پر تکیہ کرنا چھوڑیں اور امت واحدہ کے قالب میں ڈھل جائیں۔ پھر کسی کو بھی کسی بھی قسم کی گستاخی کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔ آپ یہ نسخہ آزما کر دیکھیئے تو سہی۔
امت ِ واحدہ بمقابلہ اقوام متحدہ
Jul 04, 2023