پی پی سینٹرل پنجاب کی تنظیم نو فرد واحد کے سپرد

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھا گیا ہے کہ جماعتیں جس صوبے یا علاقے میں اپنی حاکمیت یا پائوں جما لیتی ہیں مخالف جماعتوں کا وہاں سے انہیں اکثریت سے اقلیت میں بدلنا بہت مشکل کام نظر آتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی واحد جماعت تھی جس کی پاکستان کے ہر صوبے میں زیادہ نمایندگی موجود رہی ہے اور جس کا یہ نعرہ تھا کہ "چاروں صوبوں کی زنجیر ، بے نظیر بے نظیر "۔ چاروں اکائیوں سے صرف سندھ تک یا تھوڑی بہت گلگت بلتستان تک محدود ہوکر رہ جانا بھی قیادتِ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب جہاں سے پیپلز پارٹی کو ماضی میں بڑی پذیرائی ملتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی تحاریک ہو یا بے نظیر بھٹو شہید کی جلاوطنی کے بعد ملک آمد اس میں لاہور اور پنجاب کا بڑا حصہ یا کردار رہا ہے مگر اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بڑا حوصلہ کرکے ہی میدان میں اترتے ہیں۔
دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جب لاہور سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اس فیصلے پر سب حیران تھے اور وہ ایک ایسے امیدوار سے ہار جائیں گے جو ایک عام سے رہنما ہونگے یہ پیپلز پارٹی کے لئے بھی بڑے سوالات چھوڑ جائیں گے جس پر قیادت آج بھی سوچ رہی ہے مگر جوابات نہیں مل رہے۔یہ باتپارٹی کے کارکن کیلئے قابل فہم نہ تھی کہ بلاول بھٹو زرداری اس الیکشن میں پندرہ ہزار پانچ ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر چلے جائیں گے اور آزاد امیدوار ملک ظہیر عباس بیاسی ہزار دو تیس لیکر دوسرے نمبر پر اور ن لیگ کے عطاء اللہ تارڑ اٹھانوے ہزار دو سو دس ووٹ لیکر پہلے نمبر پر رہیں گے۔شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بڑے فیصلے لینے سے قبل تھوڑی احتیاط سے ہی کام لیتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جیالے اکثر سینٹرل قیادت سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب کو جان بوجھ کر ن لیگ کے لیے خالی چھوڑ رکھا ہے اور بدلے میں نون نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا ہے۔2013۔۔ 2018۔۔ 2024 تینوں الیکشن پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلسل ہاری ہے اور ہر الیکشن میں ووٹ بینک بھی بل ترتیب کم ہوتا گیا ہے اور اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک اقلیتی پارٹی بن چکی ہے ،یہاں تک کہ تحریک لبیک سے بھی پارٹی کو پنجاب میں کم ووٹ پڑے ہیں،یہ تو بھلا ہو یوسف رضا گیلانی اور اس کے بیٹوں نے ملتان سے جیت کر کچھ عزت سادات بچا لی ہے۔ورنہ کسر کوئی بچی نہیں تھی، پورے وسطی پنجاب کی 202صوبائی اور 93 قومی نشستوں میں سے پیپلز پارٹی صرف گوجر خان سے راجہ پرویز اشرف کی قومی اسمبلی کی نشست بمشکل نکال سکی ہے۔ پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے حلقہ 127 لاہور میں اپنی شکست پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی کہ تفتیش کی جائے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی لاہور میں شکست کیوں ہوئی ؟۔ 3 رکنی کمیٹی نے عرق ریزی سے کام کر کے رپورٹ پیش کر دی ہے جسے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بنا کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے ۔چیئر مین بلاول بھٹو نے ھدایت کی تھی کہ موجودہ تنظیم نو 100 دن میں مکمل کر کے پنجاب میں نئی فعال تنظیم کھڑی کریں مگر قریبا 2 ماہ گذرنے کے بعد بھی تنظیم نو سامنے نہیں آ رھی، لگتا ہے سینٹرل پنجاب قیادت ستو پی کر سو گئی ہے اور اس نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ورنہ مسلسل ہارنے والی تنظیموں کو اگلی تنظیمی سازی کی ذمہ داری نہ دی جاتی۔سینٹرل پنجاب بھر کی تنظیم نو فرد واحد کے سپرد کر دی گئی ہے جو اپنے حلقے سے ہار چکے ہیں اور آج کل گورنر ہاؤس میں پارٹی کارکنوں کی میل ملاقاتوں میں معاونت کرتے بھی نظر آتے ہیں،انکی ایک ٹانگ لاہور اور دوسری اسلام آباد میں ہوتی ہے،ایک سے زیادہ جگہ ٹانگ اڑانے کا عموما نقصان ہی ہوتا ہے تاہم ہماری دعائیں انکے ساتھ ہیں۔ اگر پی پی مرکز اور پنجاب میں وزارتیں لیتی ہے تو شائد اس بہانے انکے حصے میں بھی کچھ آ جائے۔دوسری طرف 15 کروڑ آبادی والے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو راجہ پرویز اشرف کی ذاتی پسند نا پسند پر چھوڑ دیا گیا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر انتہائی نادر خیال پیش کیا ہے کہ ان کی جگہ پر ان کے بیٹے کو وسطی پنجاب تنظیم کا صدر بنا دیا جائے ورنہ پنڈی ڈویڑن کی صدارت تو ضرور انہی کے گھر میں رہنی چاہئے جبکہ پی پی پنڈی ڈویژن کی صدارت کے دوسرے مضبوط امید وار سابق رکن قومی اسمبلی مرتضیٰ ستی ہیں، پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے بعض لیڈرز نون کی اتحادی حکومت میں شامل ہونے کی بجائے چاہتے ہیں کہ بڑی کارپوریشنز اور اداروں کی چیئر مین شپ لی جائے اور ورکرز کے کام کئے جائیں اور ان عہدوں میں امید وار بھی وہ خود ہی ہوں۔ادھر پنجاب بھر کے جیالوں میں مایوسی اور بد دلی بڑھتی جارہی ہے ، پیپلز پارٹی کا نون کے ساتھ اتحادی حکومت میں جانے کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور ممکن ہے آنے والے دنوں میں سی ای سی کا اجلاس بلا کر اسے حتمی شکل تک پہنچایا جائے مگر بجٹ کے بعد آنے والے مہنگائی اور ٹیکسوں کے طوفان کے بعد کلرک محنت کش،اساتذہ سمیت ہر طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرتا نظر آ ئے گا۔قومی اداروں اور سکولوں کی نجکاری کے خلاف مختلف ٹریڈ یونینز کا احتجاج ختم ہوا ہے تو کل (5جولائی) کو پیٹرولیم ڈیلرز ایسو سی ایشن نے ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ یہ ابھی شروعات ہے جیسے جیسے بجٹ کے مطابق ٹیکسوں کا نفاذ شروع ہو گا۔ مہنگائی کا ستایا پاکستانی سڑکوں پر چیختا چلاتا اور حکمرانو کو کوستا اور بد دعائیں دیتا دکھائی دے گا۔اس صورتحال کا ادراک اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نہیں کرتی تو پھر اسے بھی عوام رد عمل کا سامنا کرنا پڑیگا۔آئینی عہدوں کا جواز بھی بچا نہ پائے گا، لہذا اگر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کوئی واضح اورلائحہ عمل اختیار نہ کیا تو پارٹی کا پنجاب میں جوحال ہے کم و بیش پھر وہی سندھ میں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن