وزیراعظم شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں نمائندگی کیلئے مصروف عمل

 مالی سال کے بجٹ پر عمل درامد شروع ہو گیا ہے، حکومت کی طرف سے پہلے ہی یہ اعتراف سامنے ا چکا ہے راواں مالی سال کے بجٹ میں 3500 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کیے گئے، کسی ایک مالی سال میں اتنی زیادہ ٹیکسیشن کی مثال نہیں ملتی، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ ہمیں اصلاحات کے راستے پر چلنا ہوگا اور جیسے ہی کچھ گنجائش بنے گی معاشرے کے طبقات جن پربھاری ٹیکس لگ گئے ہیںان کو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے، بہرحال حکومت کے پاس ٹیکس عائد کرنے کے جواز موجود ہیں، اس کا کہنا ہے کہ قومی وسائل میں سے جب صوبوں کو حصہ دے دیا جاتا ہے تو وفاق کے پاس سود کی ادائیگی کی رقم بھی باقی نہیں بچتی، ترقی، سماجی تحفظ، صحت کے لیے مالی وسائل موجود نہیں، اور صوبوں کو اب وفا ق کا ہاتھ بٹانا ہوگا، بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کا پورا اثر 15 جولائی کے بعد آنا شروع ہو جائے گا، اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس کے مہنگائی کے اوپر اثرات منفی ہوں گے، حکومت مخالف سیاسی جماعتیںرائج طرز سیاست کے عین مطابق اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کریں گی ، جماعت اسلامی نے پہلے ہی احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے اسلام اباد میں 12 جولائی کو جمع ہونے کی نوید سنا دی ہے ، دوسری سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طرح سے اکٹھا ہونے کی کوشش کر رہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہوگا، اور اسے مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی، ائی ایم ایف کے پورے ' ان پٹ 'کے ساتھ بجٹ نافذ کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ ماہ رواں کے او اخر میں یا اگست کے اغاز میں ائی ایم ایف کے ساتھ اٹھ ارب ڈالر کے سہ سالہ قرض پروگرام پر دستخط ہو جائیں گے، ایک امر بہت واضح ہے کہ ٓائی ایم ایف کے ساتھ متوقع معاہدے کی اطلاعات کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج میں تسلسل کے ساتھ تیزی ہے۔ ڈالر اور روپے کی شر ح مبادلہ پر بھی کوئی منفی اثر نہیں ہوا، تاہم اس وقت یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ بجٹ کے اثرات اتنے منفی نہ ہوں جس سے کسی طرح کا عدم استحکام ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت وسط ایشیا کے دورے پر ہیں وہ پہلے مرحلہ میں تاجکستان گئے اور اب قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں موجود ہیں،جہاں روس کے صدر پیوٹن سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ شنگائی تعاون تنظیم کے سمٹ اجلاس میں شرکت کے موقع پر دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے ۔چین کے صدر اور دیگر اہم ممالک کی قیادت بھی آستانہ پہنچ رہی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ اور عالمی رہنماؤں سے بھی و زیراعظم کی ملاقاتیں طے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ تاجکستان میں تاجک صدر اور اپنے تاجک ہم منصب قاہر رسول زادہ سے ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے فروغ کا اظہار کیا۔اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان متعدد ایم او یوز پر سائن کئے گئے ۔ وزیراعظم شہباز شریف دوشنبے سے آ ستانہ پہنچ چکے ہیں جہاں وہ کونسل اجلاس میں علاقائی و عالمی مسائل پر پاکستانی مؤقف پیش کرنے کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) پلس کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔وزیراعظم شہباز شریف قازقستان کے صدر کے عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 8 جولائی ملتوی کردی۔بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی۔سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کی سماعت بھی ہو رہی ہے اور اس کی سماعت آخری مرحلے میں ہے ،اس کیس کا فیصلہ بھی ہونے والا ہے ،حتمی فیصلہ کیا ہو گا ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے تاہم اس سے ایوانوں میں پارٹی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اکثریت برقرار رہے گی۔
،پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی نے 5جولائی کی صبح 6 بجے سے ملک بھر کے پیٹرول پمپس بند کرنے کا اعلان کر دیا۔پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی کے صدر عبد السمیع خان نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہڑتال کا دورانیہ ایک دن سے زیادہ بھی ممکن ہے۔صدر پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی نے کہا کہ وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین اوگرا سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن مذاکرات میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا جس کے سبب ہڑتال کر رہے ہیں، ڈبل ٹیکسیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔تاہم پیٹرولیم ڈیلر کے ایک گروپ نے ہڑتال کی مخالفت کی ہے ،پی ڈی اے کے ترجمان حسن شاہ کا کہنا ہے کہ بعض ڈیلروں نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کاآلہ کار بن کرہڑتال کی یکطرفہ کال دی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔سابق وزیر آعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتا ح اسماعیل نے ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے، سیاسی جماعت کا نام عوام پاکستان پارٹی تجویز کیا گیا ہے اور یہ آئندہ ہفتے کے دوران باقاعدہ لانچ کر دی جائے گی۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی جماعتوں کی بھرمار ہے، ایک نئی سیاسی جماعت کے لیے جگہ تلاش کرنا چیلنج ہے ، یہ ایک سوال رہے گا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل دونوں کا تعلق مسلم لیگ نون سے رہا ہے، نئی سیاسی جماعت رہنماؤں کے لیے کتنی کشش کا باعث ہوگی اس کا علم آئندہ دنوں میں ہوگا، شاید خاقان عباسی صاف ستھرے سیاسی کردار کے حامل رہے ہیں، تاہم ملک کا ماحول اس طرح کا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے ساتھ اس کے پس منظر میں موجود حقائق کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیا کوئی نئی کنگز پارٹی بننے جا رہی ہے، اس کا جواب نئی سیاسی جماعت میں پناہ لینے والوں کے نام سامنے انے کے بعد مل سکے گا ، سیاست میں کنگز پارٹی فائدہ بھی دیتا ہے تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی جماعتیں ہیں زیادہ دور تک کا سفر کرنے کے قابل نہیں ہوتیں، اس جماعت کا منشور اور پروگرام سامنے آنے کے بعد ہی اس عمل کا تجزیہ ممکن ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن