اپنے مخالفین کی نااہلی اور کاہلی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عاشقان عمران خان پراپیگنڈہ کے محاذ پر کامیابی وکامرانی کے جھنڈے بلند کئے چلے جارہے ہیں۔ امریکہ کے اس ایوان سے جو ہماری قومی اسمبلی جیسا ہے حال ہی میں بے پناہ اکثریت سے ایک قرارداد منظور ہوئی جو پاکستان میں 8فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں تلخ سوالات اٹھاتی ہے۔ بانی تحریک انصاف مذکورہ قرارداد کی منظوری کی بابت بہت شاداں ہیں۔ منگل کے روز اڈیالہ جیل میں ہوئی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران موجود رپورٹروں کو بتایا کہ اب تک امریکہ میں اسرائیل کے حامی سب سے زیادہ بااثر تصور ہوتے تھے۔ ان کی حمایت میں ایوان نمائندگان سے بھاری اکثریت سے منظوری ہوئی قرارداد نے مگر پیغام یہ دیا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت امریکی رائے عامہ اور اس کے نمائندگان کی نظر میں اسرائیل سے کہیں زیادہ موثر ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان سے منظور ہوئی قرارداد کے چند ہی دن بعد پیر کی رات سے سوشل میڈیا پر خبر یہ پھیلنا شروع ہوگئی کہ ’’اقوام متحدہ‘‘ بھی عمران خان کی گرفتاری اور انہیں ’’بے بنیاد وجوہات‘‘ کی بنیاد پر بنائے مقدمات میں سرعت سے سنائی سزائوں کے بارے میں مضطرب محسوس کررہی ہے۔ ’’اقوام متحدہ‘‘ کے حوالے سے جو کہانی پھیلی اسے جھٹلانے کے لئے وفاقی وزیر قانون نے منگل کے روز ایک روایتی سا بیان دیا جو پاکستان کی ’’خودمختاری‘‘ یاد دلانے تک محدود رہا۔ تارڑ صاحب نے پنجابی محاورے والے ’’شلجموں سے مٹی جھاڑدی‘‘ تو کئی برس تک خان صاحب کے قریب ترین رہے عون چودھری صاحب ٹی وی کیمروں کے روبرو تشریف لائے۔ ہمیں سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ عمران خان سیاست میں آتے ہی خود کو ’’مسیحائے وقت‘‘ ثابت کرنے کے لئے دنیا بھر میں مشہور ایسی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنا شروع ہوگئے تھے جو مارکیٹنگ اور تعلقات عامہ کے ہنر پر کمال کی حامل تصور ہوتی ہیں۔ عون چودھری اور خان صاحب کے ایک مشترکہ دوست -زلفی بخاری- ایسی کمپنیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ ’’اقوام متحدہ‘‘ کی جانب سے عمران خان کی ’’جبری(غیر قانونی) گرفتاری‘‘ اور بعدازاں ’’جھوٹے مقدمات کے تحت سنائی سزائوں‘‘ کے خلاف آیا بیان بھی ایسی ہی ایک کمپنی کی کارستانی ہے۔
بانی تحریک انصاف کے تعلقات عامہ کے ہنر پر گرفت کے لاشعوری اعتراف کے بعد عون چودھری صاحب حب الوطنی کے تقاضے یاد دلانا شروع ہوگئے۔ پاکستان کو ’’بدنامی سے بچانے‘‘ کے واسطے دیتے ہوئے اپنا کیس مضبوط بنانے کی کاوشوں میں الجھ کررہ گئے۔
وزیر قانون کی سرسری اور عون چودھری کی طویل پریس کانفرنس توجہ سے سننے کے بعد میں ازخود تحقیق کو مجبور ہوا۔ لیپ ٹاپ کھولنے کے بعد گوگل کے سرچ انجن پر جاکر اس ادارے تک پہنچ گیا جہاں سے بانی تحریک انصاف کی گرفتاری اور سزائوں کے خلاف ’’مذمتی‘‘ بیان جاری ہوا تھا۔ پہلی دریافت یہ ہوئی کہ ’’اقوام متحدہ‘‘ نہیں بلکہ اس کی سرپرستی میں قائم بے شمار تنظیموں میں سے ایک ’’خودمختار‘‘ تنظیم ایسی بھی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اس کی بھیجی شکایت کا جائزہ لیتی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامی مذکورہ تنظیم سے مسلسل رابطے میں رہے۔ اسے نہایت تفصیل سے آگاہ رکھا کہ کیسے پاکستان کے سابق وزیر اعظم کو ’’جعلی مقدمات‘‘ کی بنیاد پر غیر قانونی انداز میں گرفتاری کے بعد جیل ہی میں قائم عدالتوں کے ذریعے سرعت سے سزائیں دلوانے کی کوشش ہورہی ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھنے والی اس تنظیم کو جو معلومات بھیجی گئیں ان کا ردعمل جاننے کے لئے مذکورہ تنظیم نے 7نومبر 2023ء کو حکومت پاکستان سے رابطہ کیا۔ ان دنوں کی حکومت نے مذکورہ تنظیم کو جواب دینا گوارہ نہیں کیا۔ دریں اثناء فروری2024ء کے انتخابات سے قبل بانی تحریک انصاف کو مختلف الزامات کے تحت قائم ہوئے مقدمات کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ سے سنگین سزائیں سنادی گئیں۔ وہ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی نااہل ٹھہرا دئیے گئے۔ ان کی جماعت کو 2024ء کے انتخابات لڑنے کے لئے اس سے مختص نشان- بلا- بھی نصیب نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں قائم ’’خودمختار تنظیم‘‘ اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ جن الزامات کے تحت بانی تحریک انصاف کو سزائیں سنائی گئی تھیں ان میں سے اکثر ہائی کورٹس کے جائزے کے بعد درست ثابت نہیں ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تحریک انصاف کے بانی کو اب تک ہائی کورٹس سے تقریباََ40 قانونی معاملات کے حوالے سے ریلیف فراہم کی جاچکی ہے۔ یہ ’’اطلاع‘‘ مگر اقوام متحدہ کی سرپرستی میں قائم ’’خودمختار‘‘ تنظیم کو شکایت لگانے والے ’’ذرائع‘‘ نے پہنچائی ہی نہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ وضاحتوں کی عدم موجودگی میں ’’جبری‘‘ گرفتاریوں‘‘ پر نگاہ رکھنے والی تنظیم نے بالآخر 18جون 2024ء کو جو رپورٹ تیار کی وہ درحقیقت ان الزامات پر مبنی ہے جو تحریک انصاف کے سرکردہ حامیوں نے اس تک مسلسل رابطے کی بدولت پہنچائے ہیں۔ 17صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کرنے کے باوجود ’’جبری گرفتاریوں‘‘ پر نگاہ رکھنے والی تنظیم اب بھی اس امرکی خواہاں ہے کہ اس کے نمائندوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ برسرزمین موجود حقائق کی روشنی میں اس تک پہنچائے الزامات کا جائزہ لے سکے۔
ایک خودمختار ملک کی حیثیت میں پاکستان مذکورہ تنظیم سے رابطہ رکھنے یا نہ رکھنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔پراپیگنڈہ کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے غالباََ بہتر یہی تھا کہ 7نومبر 2023ء کو مذکورہ تنظیم سے آئے سوالات کے کماحقہ انداز میں جوابات فراہم کردئے جاتے۔ ہماری سرکار نے شاید یہ سوچ کر چپ سادھ لی ہوگی کہ انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی ایک تنظیم کی جانب سے اٹھائے سوالات کے جوابات دینا شروع کردئے تو دیگر ایسی تنظیمیں بھی اپنی جانب سے اٹھائے سوالات کا جواب فراہم ہونے کی توقع باندھنا شروع ہوجائیں گی۔ لندن میں مقیم زلفی بخاری مگر پراپیگنڈہ محاذ پر ایک اور کامیابی کے حصول کیلئے ڈٹے رہے اور عاشقان عمران کے دل انہوں نے یہ ’’خبر‘‘ پھوڑ کر موہ لئے ہیں کہ امریکی ایوان نمائندگان کے بعد اب ’’اقوام متحدہ‘‘ بھی بانی تحریک انصاف کی گرفتاری اور ان کے خلاف سنائی سزائوں کے خلاف پریشان ہونا شروع ہوگئی ہے۔