برطانوی عام انتخابات کا جائزہ

Jul 04, 2024

طاہر جمیل نورانی

جس برطانیہ عظمیٰ سے 76 برس قبل جمہوری رول ماڈل حاصل کرنے کے بعد اپنے جمہوری نظام کی ہم نے داغ بیل ڈالی‘ جس برطانیہ سے ہم نے ماحولیات‘ آئین کی پاسداری‘ جانوروں کے حقوق‘ انسانی برابری کے اصول‘ اعلیٰ سول سروس اور قانون‘ فائلر اور نان فائلر سسٹم کا طریقہ کار ’’لارڈ میکالے‘‘کا 1835ء میں مرتب کیا نظام تعلیم اور ’’تھامس مابنگن‘‘ ایسے گریٹ سکالر اور ماہر تعلیم سے انگریزی نظام تعلیم حاصل کیا‘ اسی برطانیہ میں جو ہم برطانوی پاکستانیوں کا اب دوسرا وطن ہے اور دنیا جسے ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے‘ آج عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ برطانیہ میں عام انتخابات کا طریقہ کار کیا ہے۔ ہمارے قارئین کی یہ خواہش ہے کہ اس سلسلہ میں انہیں بنیادی معلومات سے بھی آگاہ کروں۔ ووٹنگ کیلئے ملک بھر میں آج صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک پولنگ سٹیشنز کھلے رہیں گے جہاں بغیر کسی خوف و خطر‘ بغیر سکیورٹی گارڈ و پولیس، آپ اپنا قیمتی ووٹ انتہائی دوستانہ ماحول اور پولنگ سٹیشن کے مددگار عملہ کے تعاون سے اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے امیدوار کو ڈال سکیں گے۔ کسی پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر ایک دوسرے کی سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر کے خلاف نعرے بازی ہو گی نہ ہوائی فائرنگ‘ نہ ہی ’’آوے ای اوے‘‘ اور نہ ہی ’’انشاء اللہ ممبر آف پارلیمنٹ‘‘ کے بینر اور اشتہار آپ کو نظر آئیں گے۔ مصروف پولنگ سٹیشنوں میں آپ کو قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری آنے پر انتہائی معززانہ انداز میں اپنی شناخت کروانے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنا ہوگا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ ووٹ کاسٹ کرتے وقت آپ کو اپنا شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس‘ ٹریول کارڈ جو پاس ہوگا‘ عملے کو دکھانا لازم ہوگا۔ شناخت کے بغیر آپ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے جبکہ رات 10 بجے کا وقت ختم ہونے کے بعد آپ اگر قطار میں ہونگے تو آپ کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے چند ہدایات ہونگی جن پر عمل پیرا ہونا لازم ہو گا۔ اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت کوئی دوسرا شخص آپ کے ہمراہ ’’بوتھ‘‘ کے اندر نہیں جائیگا۔ کسی بھی طرح کی مدد آپ کو اگر درکار ہوگی تو پولنگ سٹیشن ٹیم مسکراتے ہوئے اس سلسلہ میں آپ کی مدد کریگی۔ پولنگ سٹیشن کے اندر عملے کی موجودگی میں آپ نے صرف اپنے ووٹ پر توجہ مرکوز رکھنی ہے‘ کسی دوسرے ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ بتانا یا اس سے ووٹنگ پر گفتگو کرنا ممنوع ہوگا۔ ووٹ کاسٹ کرنے کا دوسرا طریقہ بذریعہ ڈاک ہے جس کے لئے سب سے پہلے آپ کو رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے۔ پوسٹل ووٹ کے لفافہ پر اٹھنے والے اخراجات متعلقہ اتھارٹی کے ذمہ ہونگے۔ کسی وجہ سے پوسٹل ووٹ بروقت نہ پہنچنے کا اگر احتمال ہو تو آپ آج رات 10 بجے تک اپنا ’’پوسٹیج فری‘‘ لفافہ متعلقہ یا کسی بھی پولنگ سٹیشن عملے کے حوالے کر سکتے ہیں۔ 
اب آجائیے آج کے الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی اور انڈیپنڈنٹ پارٹیوں کی حالیہ انتخابی مہم‘ کارکردگی اور انکے منشور کی جانب۔ ماضی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس بار برطانوی سیاست میں پہلی مرتبہ زیادہ آزاد امیدوار میدان میں اترے ہیں جس سے آج کے انتخابات کی صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ بڑی سیاسی پارٹیوں میں کنزرویٹو‘ لیبر ڈیموکریٹ بدستور ووٹروں کی توجہ کا مرکز رہے گی۔ تاہم سابقہ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر نائجل فراج جنہوں نے ’’بریگزٹ‘‘ کے بعد ریفارم پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اب اس پارٹی کے لیڈر ہیں‘ برطانیہ کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح سابق رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کی 2019ء میں قائم کی جانیوالی ’’ورکر پارٹی آف برٹن‘‘ نارتھ انگلینڈ میں انتہائی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ جارج گیلوے متعدد بار رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ ’’رسپیکٹ‘‘ پارٹی کے بعد نئی قائم کی گئی ’’ورکرز پارٹی‘‘ کے راچڈیل سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں۔ کونسلوں کے حالیہ انتخابات میں بھی انکی پارٹی کے امیدوار نے مانچسٹر کونسل میں اسی مرتبہ شاندار مگر تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ 
برطانیہ کی گرین پارٹی کی مقبولیت میں بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ آج انتخابات میں تین بڑی سیاسی پارٹیوں سمیت بعض چھوٹی سیاسی پارٹیاں بھی اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہیں۔ ان میں ہیرٹج پارٹی یارکشائر پارٹی‘ یوکپ اور کئی دیگر پارٹیاں شامل ہیں۔ آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد آج انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ تمام پارٹیوں کے منشور کا اہم حصہ صحت‘ تعلیم‘ بے روزگاری پر قابو‘ انرجی اور مہنگائی پر قابو پانا ہے جبکہ ریفارم اور ٹوری پارٹی کے منشور میں امیگریشن پالیسی کو ’’فریز‘‘ کرنا شامل ہے۔ 
اب یہ سوال کہ آج کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بڑھتی تعداد کے پس پردہ کونسے عوامل ہیں تو برطانوی تجزیہ نگاروں اور انتخابی عمل کے ماہرین کے مطابق ٹوری اور لیبر پارٹی کی اسرائیل غزہ جاری جنگ پر اسرائیل نواز وہ مبینہ پالیسیاں ہیں جس سے عام فلسطینی بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ عورتیں اور بیمار افراد بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جبکہ برطانیہ اسرائیل کو بدستور اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اسرائیل اقوام متحدہ کی جانب سے فوری جنگ بندی کے اعلان کے باوجود مظلوم فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ میری برطانوی ووٹرز سے خصوصی درخواست ہے کہ آج صبح سات بجے سے رات دس بجے تک اپنے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے دل اور ضمیر کی آواز کے مطابق اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں کہ برطانیہ ہمارا اب دوسرا وطن ہے۔ جہاں جوان ہونے والی ہماری نئی نسل کو اپنے بہتر اور روشن مستقبل کیلئے یہاں کی مقامی سیاست میں اب پھرپور کردار ادا کرنا ہے کہ بھارتی نڑاد رشی سنک برطانیہ کے اگر وزیراعظم بن سکتے ہیں تو کوئی پاکستانی نڑاد وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ سابق رکن پارلیمنٹ چودھری محمد سرور اسی سوچ اور فکر و نظر پر قائم ہیں۔ اس مرتبہ برطانیہ کا وزیراعظم کون بنے گا؟ کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ تاہم میری اور میرے ایک سابق سول سرونٹ گورے دوست کی پیشین گوئی کے مطابق لیبر پارٹی کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ چلیں آج دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

مزیدخبریں