زرعی شعبہ اور فروٹ جوسز پر عائد ڈیوٹی

پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زرعی ہے اور اس پر انحصار سے پاکستان اچھا خاصا زرمبادلہ بھی کماتا ہے لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پالیسی ساز اس امر کو یقینی بنائیں کہ پاکستان کا کسان و کاشتکار خوشحال رہے۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے 20 فیصد ڈیوٹی مشروبات پر عائد کردی اور ان مشروبات میں حکومت نے پھلوں کے پیکیجڈ جوسز کو بھی شامل کرلیا ہے اور اس اقدام سے کاشتکاروں و کسانوں اور پھلوں کے تاجروں کو خاصہ نقصان پہنچے گا۔ پھلوں کے جوسز پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کا اثر بلاواسطہ زرعی و دیہی معیشت، کسان و پھلوں کے کاشتکاروں کی آمدنی اور کاروبار پر بھی پڑیگا جو اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ کیونکہ ان سے خام مال کی خریداری کی جاتی  ہے جس سے جوسز تیار کئے جاتے ہیں اور جب صنعت استطاعت و مقدار کیمطابق پیداوار نہیں دے گی تو لامحالہ خام مال بھی کم ہی خریدے گی۔ کسانوں اور پھلوں کے کاشتکار اس ایکسائز ڈیوٹی سے یوں متاثر ہوئے ہیں کہ جوسز کی صنعت تقریبا 100000 ٹن پھل کسانوں اور پھلوں کے کاشتکاروں سے خرید رہی تھی جو کہ اب اس ڈیوٹی کے بعد ممکن نہیں اور دیہی معیشت بھی اس اقدام سے متاثر ہوئی ہے۔ پھل جلد خراب ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے کاشتکار و تاجر ان کو کم قیمتوں پر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔فروٹ جوسز کی صنعت دراصل دیہی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انکے پھلوں کی فصل کو خرید کر ضائع ہونے سے بچاتی ہے تاکہ دیہی زرعی معیشت تباہ نہ ہو اور کسان و کاشتکار بھی خوشحال رہیں۔ حکومت نے مشروبات پر20 فیصد وفاقی ایکسائز ڈیوٹی عائد کی ہے جس میں حکومت نے پیکیجڈ فروٹ جوسز کو بھی شامل کرلیا ہے تاکہ بجٹ  2024، 2025ء کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے اور بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکے۔مگر اس عائد ڈیوٹی سے قومی خزانے کو فائدہ ہونے کے بجائے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسکی وجہ یہ کہ معیاری اور قابل بھروسہ جوسز کے بجائے لوگ سستے اور غیر معیاری جوسز استعمال کرینگے جو غیر رجسٹرڈ کمپنیز فروخت کرتی ہیں۔ اس ڈیوٹی سے ایسے ہی ٹیکس ناہندگان و ٹیکس چور طبقے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔جون 2023ء  میں قومی بجٹ میں اس ڈیوٹی کے عائد ہونے کے بعد پیکیجڈ جوس کی صنعت کی پیداوار  چالیس فیصد نیچے گرگئی ہے جس نے عام لوگوں کو معیاری جوسز کے حصول سے محروم کردیا ہے۔ اس 20 فیصد ڈیوٹی کے اجرا کے بعد جوسز کی صنعت سال 2024ء میں کئی ارب روپے تک گر گئی جسکو فروغ پانا تھا اور یہ تخمینہ اس 20 فیصد ڈیوٹی کے نفاذ سے پہلے لگایا گیا تھا۔ خالص پھلوں سے تیار کردہ جوسز کی صنعت کا سالانہ منافع ارب ہا روپے تھا  اور اس صنعت سے ایک لاکھ لوگوں کا روزگار منسلک ہے۔ڈیوٹی کے عائد ہونے کے بعد کاروبار تو جو سکڑنا تھا وہ تو سکڑا مگر اس سے اس صنعت کے اندر بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ صنعت پوری طرح سے پیداوار کرنے کے قابل ہی نہیں رہی جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور اسی وجہ سے سال 2023ء، 2024ء میں کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور نا ہی 2024، 2025ء کی کوئی منصوبہ بندی ہوئی نئی سرمایہ کاری کے لیے۔ اس ڈیوٹی کے عائد ہونے کے بعد ملازمین کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے اور بالخصوص روزانہ اجرت پر کام کرنے والے فارغ ہوگئے ان تمام اقدامات سے ان غیر روایتی کمپنیوں کی چاندی ہوگئی جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اور انکے سستے مگر غیر معیاری جوسز لوگوں میں عام ہوگئے جن کی اشیاء  میں معیار کا فقدان ہے اور مضر صحت بھی ہیں۔ ٹیکس نیٹ سے باہر یہ غیر دستاویزی صنعت بھاری منافع کمارہی ہے جسکی وجہ یہی 20 فیصد ڈیوٹی ہے جو معیاری اورمستند صنعت پر عائد کی گئی ہے اور یہ امر محکمہ خوارک و صحت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ منافع اور ٹیکس چوری تو رہی ایک طرف،  یہ غیر رجسٹرڈ صنعتیں غیر معیاری جوسز کی فروخت سے لوگوں کی صحت سے کھیل رہی ہیں۔پھلوں کا رس و جوسز دراصل اچھی غذا میں ہی شامل ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ فروٹ جوسز میں پھلوں کے قدرتی اجزاء شامل ہوتے ہیں جوکہ اچھی صحت و نشوونما کے ضامن ہوتے ہیں نیز ان جوسز میں اہم وٹامن و نمکیات ہوتے ہیں جو تقریبا تمام عمر کے لوگوں کے لیئے ضروری ہوتے ہیں۔ پیکج جوسز جو کہ مختلف ذائقوں کے انتخاب کے ساتھ آسانی سے دستیاب اور فوری اور آسانی استعمال ہوجانے کی وجہ سے عوام میں زیادہ مقبول ہیں۔ پھلوں کے جوسز کی طبی افادیت بھی ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کو دیے جاتے ہیں بالخصوص ان متاثرین کو جو گرمی، لو لگنے سے ڈی ہائیڈریشن سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ جوسز متاثرین کی فوری شفایابی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ صنعتیں فروغ پائیں تو پھر اس ڈیوٹی کو مکمل ختم نہیں کرسکتی تو کم ازکم اس ڈیوٹی کو تھوڑا کم کردے تاکہ ریونیو بھی حاصل کیا جاسکے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے غیرقانونی کمپنیز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ریگولیٹ کیا جائے کیونکہ ایسی تمام کمپنیز غیر معیاری اجزا کی فروخت میں ملوث ہیں اور حفظان صحت کے اصولوں سے قطعی عاری ہیں۔ ایک صورت اس مسئلے کے حل کی یہ بھی ہے کہ حکومت اور رجسٹرڈ فروٹ جوسز کی صنعت سے وابستہ افراد کی ایک ٹاسک فورس بنا دی جائے جو ایسی غیر رجسٹرڈ کمپنیز اور انکی اشیاء پر نظر رکھ سکے۔

ای پیپر دی نیشن