ڈی ایس پی کو کانسٹیبل بنا دیا گیا۔ یہ خبر بڑی دلچسپی سے پڑھی اور سنی جا رہی ہے۔یہ وقوعہ بھارت میں رونما ہوا۔کانپور میں ڈی ایس پی کرپا شنکر کنوجیا ہوٹل میں لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ پکڑا گیا۔ شنکر نے گھریلو مصروفیات کا بہانہ بناکر رخصت لی اور گھرپر سرکاری ڈیوٹی پر جانے کا کہہ کر ہوٹل چلا گیا۔ بیوی کو شبہ تھا۔ اس نے پولیس کو مطلع کیا تو پکڑا گیا۔وہ بیگھاپور میں سرکل آفیسر ہوا کرتا تھا۔ اب گورکھ پور میں کانسٹیبل ہے۔
معطلی سزاؤں میں کوئی سزا نہیں ہے بلکہ یہ بعض افسران کو ایسے ہی اقدامات مزید کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ برطرفی البتّہ ایک سزا ضرور ہے۔ ایسی ہی یا اس سے کم و بیش اثرات رکھنے والی اور مجرم کو عبرت کا نشان بنا دینے والی سزا ڈیموشن یعنی تنزلی ہے۔جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کے خاتمے پر جب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زیر عتاب آئے تو ان دنوں ’’کسی نے‘‘ ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ سزا کے طور پر جنرل مشرف کو کیپٹن بنا کر ان کی پیرنٹ یونٹ میں تعینات کر دیا جائے۔ دو چار ماہ کے لیے وہاں وہ وردی میں سروس کریں' ان کو وردی سے بڑی محبت تھی ایک مرتبہ انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ یعنی وردی اتارنے کی تاریخ دی اور وہ تاریخ قریب آئی تو مکر گئے۔کہنے لگے وردی تو میری کھال ہے۔پھر جنرل کو کھال اتارتے ہی بنی۔
ڈیموشن کے حوالے سے ایک اور بھی دلچسپ اور یادگار واقعہ ہے۔ 2009ء میں عطاربانی کی کتاب پر تبصرے ہونے لگے جس میں قائد اعظم کی تین غلطیوں کی عطاربانی نے نشاندہی کی تھی۔عطاربانی گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان ایئر فورس کی جانب سے اے ڈی سی تھے۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی کی طرف سے ان پر غلطیوں کے الزامات ناپسندیدہ تھے۔ پاکستان میں آج بھی ملامتی طبقہ موجود ہے جو قائدا اعظم اور تحریک پاکستان پر ملامت اور تبرا کرتا رہتا ہے۔ وہ قیام پاکستان کا کریڈٹ جواہر لال نہرو کو دیتا ہے۔ایسے لوگوں نے قائد اعظم کی تین غلطیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔2009ء میں اخبارات میں اس کا بڑا تذکرہ ہوا۔ مجید نظامی صاحب نے مجھے قائد کے خلاف شائع ہونے والے ارشاد حقانی صاحب کے کالموں کا جواب دینے کی ہدایت کی۔میرے کالم میں حقائق سے زیادہ جذبات تھے۔ اس کالم کے جواب میں ربانی صاحب نے مجھے اشتعال زدہ خط لکھا۔وہ بھی نوائے وقت میں شائع کیا گیا تھا۔میں نے ان دنوں تین غلطیوں کے حوالے سے کافی کالم اکٹھے کیے تھے جو کتابی صورت میں محفوظ ہیں مگر وہ کتاب کبھی شائع نہیں ہو سکی۔ ان کالموں میں خلیل الرحمن صاحب کا کالم بھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عطاربانی صاحب کی ڈیموشن کیوں ہوئی تھی۔
خلیل الرحمن لکھتے ہیں :ارشادحقانی صاحب نے گروپ کیپٹن ریٹائرڈ عطا ربانی قائداعظم کے اے ڈی سی کی کتاب پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قائداعظم نے تین غلطیاں کیں:
1 - غلام محمد کو وزیر خزانہ نامزد کیا۔ 2 -جنرل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھجوانے سے انکار پر برطرف نہ کیا۔3 -ڈھاکہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا۔ یوں تو مندرجہ بالا امور کا جواب کافی تفصیل سے دے دیا گیا ہے تاہم میں عطا ربانی کی ذات اور حیثیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ ایسے شخص کو قائداعظم پر کسی بھی نقطہ نظر سے درست یا غلط انگلی اٹھانے کا حق ہے یا نہیں؟
عطا ربانی کو 1958ء -59ء میں بطور گروپ کیپٹن جوائنٹ سروسز سٹاف کالج کورس برطانیہ بھیجا گیا جہاں سے واپسی پر انہیں ایئر کموڈور کے عہدہ پر ترقی دے کر پاکستان ایئر فورس ہیڈ کوارٹر میں ایئر چیف آف سٹاف(ایڈمن) لگایا گیا۔ اس وقت کے قواعد کے مطابق یہ ضروری تھا کہ کورس پر جانے والے افراد کورس کے بعد جرمنی جائیں اور جرمن شہروں میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کریں۔ عطا ربانی نے ایسا نہ کیا۔ ایئر مارشل اصغر خان جو اس وقت پاکستان ایئر فورس کے کمانڈر۔ ان چیف تھے انکو گمنام خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ عطا ربانی نے جرمنی کے دورے والی شرط پوری نہیں کی۔ مگر سفری اور دیگر اخراجات حاصل کر لیے ہیں۔
ایئر چیف نے عطا ربانی کو طلب کیا اور پوچھا کہ کورس کے قواعد کے مطابق اس نے جرمنی کا دورہ کیا تھا؟ عطا ربانی کا جواب ’’ہاں‘‘ میں تھا! انہوں نے عطا ربانی کو حکم دیا کہ پاسپورٹ پیش کریں۔ پاسپورٹ میں جرمنی جانے کا کوئی اندراج نہ تھا۔ قواعد کے مطابق تنظیمی کارروائی کے بعد ایئر مارشل اصغر خان نے عطا ربانی کو ایئر کموڈورکے عہدے سے معزول کرکے فلائیٹ لیفٹیننٹ (بریگیڈیئر سے کیپٹن )بنانے کا حکم دیا۔ اس وقت ایئر وائس مارشل رحمان۔ جنرل سٹاف آفیسر پی ایف ہیڈ کوارٹرز میں تعینات تھے۔ جنہوں نے ایئر مارشل اصغر خاں کو بتایا کہ عطا ربانی مستقل ونگ کمانڈر کا عہدہ رکھتے ہیں۔ اس لئے اس سے نیچے تنزلی سے قواعد و ضوابط کے مطابق مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔چنانچہ انہیں ایئر کموڈور سے تنزلی کرکے ونگ کمانڈر بنا دیا گیا۔ چند سال بعد گروپ کیپٹن بطور بیس کمانڈر کوہاٹ ریٹائر ہوگئے۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا شخص جو قسمت کا تکا لگنے سے آزادی کے وقت قائداعظم کے بطور گورنر جنرل عملہ میں شامل ہوگیا۔ جس کی ملازمت کا کچھ کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ان کو قائداعظم کے کردار پر رائے زنی کرنے اور وہ بھی اس طرح جس طرح انہوں نے کی، اس کا حق ہے یا نہیں؟ مزید برآں رضا ربانی کے والد محترم عطاربانی کیساتھ نیوی کی جانب سے تعینات کیے گئے اے ڈی سی احسن نیول چیف اور آرمی سے گل حسن آرمی چیف بنے جبکہ عطاربانی جو قوم کے باپ قائد اعظم کی غلطیاں تلاش کرتے رہے تنزلی کے سزاوار ٹھہرے۔