پاکستان میں سب سے زیادہ مسائل کی وجہ توانائی کا شعبہ بنا ہوا ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کے باعث ملک کا ہر شخص پریشانی کا شکار ہے۔ پاکستان میں صنعتوں کو ملنے والے بجلی ریٹ پر بننے والی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں مقابلہ نہیں کرسکتیں جس سے ملک میں صنعتی شعبہ زوال پذیر ہے۔ اگر مہنگی ترین بجلی پر بھی صنعتکار اپنی ملز چلا رہے ہیں تب بھی اس ریٹ پر لوڈشیڈنگ کے باعث کاروباری شعبہ نقصانات کا شکار ہے۔ مہنگے ترین ریٹ پر بلاتعطل بجلی کی فراہمی بھی ممکن نہیں بنائی جاسکی۔ اس بارے میں جب بھی اہل اقتدار سے سوال کیا جائے تو یہی جواب ملتا ہے کہ بجلی چوری بہت زیادہ ہے اور لائن لاسز کی وجہ سے بجلی مہنگی کی جارہی ہے۔ بجلی چوری روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں حکومتی رٹ قائم کرنے کے بجائے چوری کی گئی بجلی کی قیمت وقت پر بل ادا کرنے والوں سے وصول کی جارہی ہے تو دوسری جانب بجلی چوری والے علاقوں میں آپریشن کرکے بجلی چوری کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان علاقوں میں طویل لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ اس شدید گرمی کے موسم میں بروقت پورا بل ادا کرنے والے شہری ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔
توانائی کے شعبے میں بدنظمی‘ حکومتی نااہلی اور غلط معاہدوں کے باعث ملک کے عوام عذاب کا شکار ہیں۔ حالانکہ پاکستان قدرتی طور پر ہائیڈل پاور جنریشن کے لئے آئیڈیل ملک ہے اور آبی وسائل کے درست استعمال سے نہ صرف سستی ترین بجلی اپنی ضرورت کے لئے پوری کرسکتا ہے بلکہ اپنے آبی وسائل کے بھرپور استعمال کے بعد پڑوسی ممالک کو بجلی فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت کی نااہلی‘ انا اور عدم توجہی کے باعث آج ملک اندھیروں کا شکار ہے اور اگر روشنی ملتی ہے تو اس کی قیمت عوام کی استطاعت سے باہر ہے۔ تھرمل پاور کمپنیوں سے مبینہ طور پر ایسے معاہدے کئے گئے ہیں کہ تھرمل پاور کمپنی کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کے برابر ہر ماہ حکومت پاکستان فی یونٹ قیمت بمع فرنس آئل کی خریداری اور سرکاری ٹیرف پر ٹینکرز کا کرایہ ادا کرنے کی پابند ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے ملک کو ایسے معاہدوں میں جکڑ دیا ہے کہ تھرمل پاور کمپنیاں چاہے بجلی بنائیں یا نہ بنائیں‘ انہیں ہر ماہ فکس رقم حکومت پاکستان دینے کی پابند ہے۔ آئے روز خبروں میں آتا ہے کہ تھرمل پاور کمپنیاں اپنی پیداوار نصف رکھ کر پوری پیداواری صلاحیت کے برابر رقم حکومت سے لے رہی ہیں۔ اس طرح کے معاہدے اگر ہیں تو پھربجلی کیسے سستی ہوگی؟ اس بات کا تو میں خود گواہ ہوں کہ نجی تھرمل پاور کمپنیوں نے اپنے ایجنٹ رکھ کر فرنس آئل کی ٹرانسپورٹیشن کا کرایہ نصف کررکھا ہے۔ فرض کریں اگر کراچی سے پنجاب کا حکومت پاکستان سے فرنس آئل فی ٹن کرایہ 15,000/-روپے لیا جاتا ہے تو اپنی ایجنٹ کمپنیوں کے ذریعے آئل ٹینکرز کو 7000-8000روپے فی ٹن کرائے پر رضامند کرکے فرنس آئل کی کراچی سے پنجاب ٹرانسپورٹیشن کرائی جاتی ہے۔ اس طرح سے ماہانہ کروڑوں روپے کی بچت کی جاتی ہے۔ نجی تھرمل پاور کمپنیوں کے اس گورکھ دھندے کے متعلق تو میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں لیکن شاید اختیارات کے حامل افراد بھی اس جرم میں شریک ہوں گے اسی لئے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے لیکن نجی تھرمل پاور کمپنیوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ مہنگی ترین بجلی کی پیدوار تھرمل پاور جنریشن سسٹم سے ہوتی ہے اور یہ کسی طور بھی ایک غریب اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے لئے کارآمد نہیں ہوسکتا اور ایسے ملک میں جہاں اللہ رب العزت نے ہائیڈل اور سولر پاور جنریشن کے لامتناہی وسائل دستیاب کر رکھے ہوں وہاں اس پاور جنریشن سسٹم میں قوم کو پھنسا دینا کسی بھی طور پر دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔
حکومت پاکستان اپیکس کمیٹی کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں تھرمل پاور کمپنیوں سے نئے معاہدے کئے جائیں اور اس شق کو ہر صورت ختم ہونا چاہئے کہ تھرمل پاور کمپنی کو اس کی پیداواری صلاحیت کے مساوی ہر ماہ ادائیگی کی جائے گی بلکہ اسے پیداوار کے حساب سے ہی چارجز اس وقت تک ادا کئے جائیں جب تک کہ پاکستان ہائیڈل و سولر ذرائع سے اپنی بجلی کی ضرورت مطابق پیداوار کا بندوبست نہیں کرلیتا۔ اس کے علاوہ تھرمل پاور کمپنیوں کو فرنس آئل کی بمع سرکاری ریٹ پر کیرج بلوں کی ادائیگی کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے اور جس ریٹ پر آئل ٹینکرز کو فرنس آئل کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے اس ریٹ پر ادائیگی ہونی چاہئے اور ماہانہ کروڑوں روپے کے گھپلوں کا فوری سدباب ہونا چاہئے۔
بجلی سستی تو اسی وقت ہوسکتی ہے جب پاکستان بجلی سستے ترین ذرائع ہائیڈل یا سولر سے استفادہ کرے۔ ہائیڈل پاور جنریشن کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ ملک بھر میں موجود نہروں پر چھوٹے چھوٹے ہائیڈل ٹربائن لگاکر مقامی ضرورت کی وافر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس کی لاگت غالباً ڈھائی روپے فی یونٹ تک ہوگی۔ پاکستان میں موجود نوجوان انجنیئرز پوری طرح یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ پاکستان کے نہری نظام پر ہی ہائیڈل پاور جنریشن ٹربائن لگاکر حکومت کو سستی ترین بجلی کی فراہمی ممکن بناسکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کا آغاز کریں جس طرح سی پیک کی تعمیر و حفاظت کے متعلق گزشتہ دنوں قومی اتفاق رائے سامنے آیا ہے۔
بجلی چوری کے خاتمے کے لئے بھی حکومت جامع آپریشن کا آغاز کرے اور بجلی بلوں کے بقایاجات کی وصولی اور کنکشن بحالی کے لئے مناسب فیصلے کئے جائیں کیونکہ مہنگی ترین بجلی کے باعث لاکھوں لوگ عدم ادائیگی کے باعث بجلی کنکشن سے محروم کئے جاچکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی موجودہ آمدن میں وہ موجودہ ٹیرف پر بجلی بل ادا کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ مفت سولر سسٹم کی فراہمی کا آغاز کرے جس طرح موجودہ بجٹ میں حکومت سندھ نے لاکھوں شہریوں کو آسان طریقہ کار پر سولر سسٹم کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ اس اسکیم میں رفاعی اداروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ عام غریب آدمی کو ریلیف مل سکے۔
چین ہمارا بہترین ہمسایہ اور ہر برے وقت میں بہترین ہمنوا ملک ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر برادر اسلامی ممالک کا بھی ہمیشہ سے تعاون رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ سرمایہ کاری کے لئے برادرممالک کو پاکستان میں B.O.T. کی بنیاد پر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کی پیشکش کی جائے اور انہیں ان منصوبوں پر مناسب ترین منافع کی پیشکش ہونی چاہئے۔ یقینی طور پر پاکستان میں ہائیڈل اور سولر پاور جنریشن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ B.O.T.کی بنیاد پر پاکستان بڑے بڑے اور قومی اہمیت کے حامل منصوبے مکمل کرسکتا ہے۔ سیاسی طور پر عدم استحکام کا خاتمہ کرکے اس بارے میں سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا اور یہی ملک و عوام کی اصل خدمت ہوگی کہ عام آدمی کو مہنگی ترین بجلی اور بدترین لوڈشیڈنگ سے جلد از جلد نجات دلائی جائے۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ملک میں ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے کے مکمل ذمہ دار سیاستدان ہی ہیں۔ ملک میں اب تک بننے والے تمام ڈیم ایک فوجی جرنیل نے بنائے تھے اور ملک اب تک ان ڈیموں کے ثمرات سے مستفید ہورہا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی کیونکہ حقائق بہت تلخ ہیں جس کی وجہ سے آج ملک مسائل کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔