جمعرات ، 27  ذوالحج   ،    1445ھ4 جولائی  2024ء

 جے یو آئی کا سپریم کورٹ میں الیکشن کمشن پر اعتماد کا اظہار۔
خدا جانے جے یو آئی والوں کے دل میں کیا چل رہا ہے۔ ایک طرف شیشہ بنے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف فولاد بنے نظر آتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ایک طرف نئے الیکشن کا مطالبہ دوسری طرف اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کی باتیں۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے چلنے والے کیس میں انہوں نے یعنی ان کے وکیل نے ایسا موقف پیش کیا کہ تمام اپوزیشن کو تو چھوڑیں خود جج صاحبان نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ جی ہاں جے یو آئی نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمشن کے موقف سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمشن بالکل درست کام کر رہا ہے۔ اس موقف نے تو اپوزیشن کو پریشان کر دیا ہے۔ سیاسی پنڈت بھی حیران ہیں اور غالب والی بات سامنے ہے۔ 
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ  پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔
اب معلوم نہیں فضل الرحمن کے پاس ایسا کونسا فارمولا ہے کہ وہ شکار کو بھی خوش اور شکاری کو بھی خوش کر سکتے ہیں۔ یہ بہرحال ان کے لیے مشکل کام نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی اپنی ایسی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ان کی یہی بڑی صلاحیت ہے کہ اپوزیشن انہیں اپنا اور حکمران اپنا آدمی سمجھتے ہیں۔ آج بھی دونوں اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں مگر یہ تو صرف فضل الرحمن ہی جانتے ہیں کہ وہ کس کی طرف ہیں۔ خود مسلم لیگ نون والے بھی کہہ رہے ہیں کہ مولانا کی پالیسی ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ 
٭٭٭٭٭
باکسر عثمان وزیر مصر میں اپنے ٹائٹل کے دفاع کیلئے نہیں جا سکے۔
 ہمارے انٹرنیشنل باکسر کی خدمات کا صلہ یہ ہے۔ جو اب تک ناقابل شکست رہا ہے اس نے 13 مقابلوں میں حصہ لیا اور کامیاب رہا۔ اب اسے 6 جولائی کو مصر میں اپنے ٹائٹل کے دفاع کے لیے مقابلہ میں شرکت کرنا تھی مگر محدود مالی وسائل اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس مقابلے میں شرکت کرنے  نہیں جا سکے۔ کیا کوئی ادارہ یا خود محکمہ کھیل والے اسے سپورٹ نہیں کر سکتے۔ کیا ہمارے تمام تر فنڈز صرف کرکٹ کے لیے ہی مختص ہوتے ہیں۔ اس پر دوسرے کھیل کے کھلاڑیوں کا حق نہیں ہوتا جو عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، ملک کا پرچم سربلند کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔ محنت اور مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جو کھلاڑی اپنا جیب خرچ جمع کر کے یا اْدھار لے کر ان مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں وہ آخر کب تک ایسا کر سکتے ہیں سو یہی صورتحال آج  یوتھ ورلڈ باکسنگ چیمپین   عثمان وزیر کو بھی درپیش ہے۔ گلگت بلتستان کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے انمول ہیرے کی قدر کرنی چاہیے پہلے ہی بے قدری کی وجہ سے ہمارے بے شمار انٹرنیشنل باکسر، تن ساز ، ویٹ لفٹر مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سوں کے پاس انٹرنیشنل ایونٹ میں جیتے میڈل بھی ہیں۔ اس لیے محکمہ کھیل اور حکومت فوری طور پر عثمان باکسر کے مصر جانے کے انتظامات کرے تاکہ وہ اپنے اعزاز کا دفاع کر سکیں۔ 
٭٭٭٭٭
بھارتی لوک سبھا میں راہول گاندھی کا قرآن اور نبی کریم کا ذکر۔ 
کانگریس اس بار لوک سبھا میں ایک نئی توانا جماعت بن کر آئی ہے۔ اب وہ بی جے پی کے سامنے دب کر رہنے کی بجائے اس سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہے۔ اس کا اندازہ مودی کو بھی ہے جبھی تو اس بار جب راہول گاندھی اپوزیشن لیڈر بن کر آئے تو مودی نے کھڑے ہو کر ان کا سواگت کیا۔ ورنہ پچھلی بار تو کرسی پر بیٹھے بیٹھے ناگواری سے ان کو دیکھا تھا۔ راہول گاندھی بھی جانتے ہیں کہ اس بار ان کو جو زیادہ نشستیں ملیں اس میں مسلمان ووٹروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جبھی تو انہوں نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے جب کہا کہ دنیا کے بڑے بڑے لوگوں نے امن اور محبت کا پیغام دیا ہے تو قرآن کی آیت کا حوالہ دیا اور سرکار دو عالم کا نام مبارک لے کر ان کا تذکرہ کیا۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو بی جے پی کو آسانی سے ہضم نہیں ہو گی۔ اس نے گزشتہ ایک دہائی سے جس نفرت اور اسلام دشمنی کی آگ بھڑکائی تھی اس پر وہ کسی صورت پانی پڑنے نہیں دے گی۔ مگر اب اس کے ہاتھ قدرے بندھے ہوئے ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب خالو خلیل فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا دھرم کارڈ استعمال کرنے کے باوجود دیکھ لیں ایودھیا اور وارانسی جیسے مقدس ہندو شہروں میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارتی عوام ہندوتوا کے نام پر نفرت پھیلانے والوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں سیکولر پالیسیوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہیں تو اگلے الیکشن میں بی جے پی کی جگہ ان کی حکومت بن سکتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
16 سال کی عمر میں بنک لوٹنے والا گینگسٹر وزیر کھیل بن گیا۔ 
اسے قسمت کی یاوری کہیں یا جمہوری نظام کا کارنامہ کہ جنوبی افریقہ کے وزیر کھیل گائٹن میکنز سات سال بنک لوٹنے اور دیگر جرائم کی وجہ سے جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی  اور قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا۔ کاروبار میں قدم رکھا تو کئی نائٹ کلبز، معدنیات کی کانیں آج ان کی ملکیت ہیں۔ پھر سیاست میں آئے تو موجودہ حکومت کی اتحادی پارٹی میں ہونے کی وجہ سے انہیں وزیر کھیل کا عہدہ ملا۔ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہمت کرے انسان تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ زندگی شارٹ کٹ کا نام نہیں یہ ایک طویل اور پْرخطر راہ گزر ہے یہاں صرف چند فی صد لوگوں کو بنا بنایا سب کچھ ملتا ہے۔ ورنہ سب سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔ بس زندگی بدلنے کا عزم پختہ ہونا چاہیے۔ سیاسی دنیا میں درجنوں ایسے رہنما گزرے ہیں جنہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور سخت سزائیں ملیں مگر بعد میں وہ سیاسی افق پر ستارے بن کر چمکے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی درجنوں ایسے رہنمائوں کی مثالیں موجود ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ غیر اخلاقی جرائم میں ملوث نہیں تھے۔ مگر جنوبی افریقہ کے وزیر کھیل کی تو کہانی مختلف ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنے اتحادیوں کو راضی رکھنے کے لیے بہت سے کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑتے ہیں۔ سو وہاں بھی یہی ہو رہا ہے اور جہاں جہاں اتحادی حکومتیں بنتی ہیں یہی کچھ ہوتا ہے کیونکہ ہر حکومت ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن