تاجکستان تجارتی راہداری کا حصہ بننے کا خواہش مند 

 وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور تاجکستان کے درمیان دو طرفہ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک زراعت، صحت، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ملکر کام کریں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے ساتھ پریس کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ ٹرانسپورٹ اور گڈز کراچی بندرگاہ سے افغانستان کے راستے تاجکستان تک اشیاء کی نقل و حمل ہو رہی ہے، چاہتے ہیں کہ تاجکستان اور پاکستان کے درمیان روڈ اور ریل نیٹ ورک مزید مضبوط ہو۔ہمیں کثیر جہتی تجارتی راہداریاں تلاش کرنی چاہئیں۔ چین، تاجکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کا حصہ بننے کے خواہشمند ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا تاجکستان کا دورہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آج پاکستان کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے ایک دہشت گردی اور دوسرا معیشت کا استحکام۔ دورے کے دوران ہوا بازی، سفارت کاری، تعلیم ،کھیلوں، سماجی روابط، صنعتی تعاون اور سیاحت سمیت کئی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے۔دہشت گردی ایک عالمی ایشو بن چکا ہے اس پر بھی بات ہوئی۔ پاکستان اور تاجکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
ہماری معیشت زبوں حالی سے دوچار ہے۔ہم امور مملکت چلانے کے لیے آئی ایم ایف کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی منشا ڈکٹیشن اور ہدایت پر تیار کیا جاتا ہے۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں مگر ان کو جس طرح مینج کیا جانا چاہیے وہ اس طرح نہیں ہو رہے۔ اس کی بڑی وجہ کرپشن کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کی مراعات بھی ہیں۔ ان پر بہرحال حکومت کام کر رہی ہے جس میں کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا تاجکستان کا دورہ پاکستان کی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ آج پاکستان میں توانائی کا  بحران ہے،  بجلی کی کمی کے باعث بدترین لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بجلی اتنی مہنگی ہے کہ عام پاکستانی تو کجا سرمایہ کار بھی افورڈ کرنے سے قاصر ہیں۔گرین انرجی کی طرف جائیں تو سستی بجلی پیدا ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے وقت درکار ہے۔ پاکستان افغانستان اور تاجکستان کے مابین کا سا ایگریمنٹ 2018ء میں تکمیل پذیر ہونا تھا جو بوجوہ نہ ہو سکا۔وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے دوران کاسا پر بھی بات ہوئی جس کے اسی سال مکمل ہونے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔اس سے پاکستان کے قومی گرڈ میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی شامل ہونے کی توقع ہے جس سے بجلی کی کمی دور ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخ بھی کم ہو سکیں گے۔
تاجک صدر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کر کے تجارت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کی ایک وجہ اس کی لیڈرشپ کی طرف سے گرم پانیوں تک رسائی کی کوشش تھی مگر اس کے لیے غلط طریقہ کار اپنایا گیا تو سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں بٹ گئی۔تاجکستان اور روس ہماری بندرگاہوں اور تجارتی راہداریوں کو معاہدوں کے تحت استعمال کرتے ہیں تو یہ ان کے اور ہمارے لیے یکساں سود مند ہوگا۔تاجکستان کی طرح روس کی طرف سے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان سے روس کے سفیر البرٹ پی خوریف نے ملاقات کی۔ روسی سفیر نے اس موقع کہا ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور تجارتی راہداری کے طور پر تاجکستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے پاکستان تک زمینی رابطہ استوار کرنے کا  خواہاں ہے۔ ملاقات میں پاکستان اور روس کے مابین روڈ نیٹ ورک اور مختلف ممالک سے منسلک زمینی راستوں پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس سے پاکستان سے روس تک ٹریڈ اور کارگو میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو سکتا ہے۔ روسی سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان کو مختلف منصوبوں میں مالی اور تکینکی  معاونت فراہم کرنے کے خواہشمند ہیں۔
پاکستان کا محل وقوع دنیا کے بڑے حصے کے لیے کوریڈور ہے۔سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس منصوبے نے دنیا کے فاصلے سکیڑ دیے ہیں۔روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں  اس منصوبے کا حصہ بنتی ہیں جیسا کہ روس اور تاجکستان کی طرف سے خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تو یہ پاکستان کی معیشت کے استحکام کا باعث ہوگا۔پاکستان کا دشمن سی پیک کے پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہونے کے باعث ہی  اس کی ناکامی کے لیے سازشیں پھیلاتا رہتا ہے۔اس نے پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اس میں دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔مگر وہ مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے بدستور سازشوں میں مصروف ہے۔اس نے تو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اپنی سکیورٹی کو فول پروف بناتے ہوئے اسکی منصوبہ سازیوں پر ہمہ وقت  کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپریشن عزم استحکام اس حوالے سے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر حوصلہ افزا اقدامات اورکوششیں ہو رہی ہیں۔گزشتہ روز وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی کینیڈین ہائی کمشنر لیسلی سکینلون سے ملاقات ہوئی جس میں  معاشی اقدامات پر بات کی گئی۔ اْدھر پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مشاورت کا چھٹا دور اسلام آباد میں ہوا جس  میں ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ شفقت علی خان اور بیلاروس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی لوکا سیوچ کی قیادت میں وفود نے شرکت کی۔ فریقین نے سیاسی تعلقات،اعلیٰ سطح پر روابط، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی اور سکیورٹی امور پر تعاون اور تعلیم و طرفہ تعلقات کا جائزہ بھی لیا۔ دنیا کے ساتھ پاکستان کے روابط مضبوط ہونا خوش آئند ہے سی پیک پاکستان کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ جسے بہر صورت دشمن کی سازشوں سے بچانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن