فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
پیارے پڑھنے والے اس سوچ میںگم ہوں کہ کالم کا آغاز گرمی کی شدت سے کروں یا مہنگائی کی تباہ کاریوں سے۔دونوں ہی ایک آفت بن چکی ہیں۔کسی عذاب کی طرح ملک عزیز کومکمل طورپر اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔سانحہ یہ نہیں کہ ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔سانحہ یہ ہے کہ ان کو قابو کرنے کی کوئی تدبیر نہ تو نظر آرہی ہے اور نہ کوئی ایسی ہستی ہے جس سے شکوہ کریں اور وہ کوئی حل بھی کرے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اس رونے دھونے کے کوئی اثرات نہ ہوں گے ۔اقتدار کے ایوان مکمل طور پر ساﺅنڈ پروف ہوچکے ہیں۔مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کی سسکیاں ،آہیں اور اب چیخیں ان کی در و دیوار سے ٹکرا کر فضا میں تحلیل ہو رہی ہیں۔لیکن کیا کریں کہ
ہم نے سیکھا ہے اذان سحر سے یہ اصول
”حکمران “ خوابیدہ ہی سہی ،ہم نے تو صدا دینی ہے
مملکت خدا دادکا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ترقی معکوس یعنی زوال کا عمل تیزی سے جاری ہے۔اصول تو یہی ہے کہ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہوتا ہے لیکن یہاں تو گنگا بھی الٹی بہہ رہی ہے۔ہر آنے واا دن بد ترین ثابت ہو رہا ہے۔پٹرول بم ،گیس بم اور بجلی بم آئے روز گرائے جا رہے ہیں۔پتا نہیں کون لوگ تھے جنہوں نے پہلی بار قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کی معیشت کو قرضے میں جکڑنے کے اسباب تیا ر کیے۔وہ دن اور آج کا دن ملکی معیشت دلدل میں پھنستی جا رہی ہے۔اب تو یہی دعا ہے کہ اللہ پاک اس قوم پر رحم فرمائے اور ایسی قیادت نصیب فرمائے جو عوام میں سے ہو اور عوام کا دکھ سمجھے۔پون صدی سے جو حکمران طبقہ اس ملک پر حکمرانی کر رہا ہے اس نے نہ تو زندگی میں کبھی غربت کا مزہ چکھا ہے اور نہ ہی کبھی اس سے متعلقہ مسائل سے دوچار ہوا ہے اس لیے وہ غریب کے دکھ کو کیا سمجھیں۔اللہ کرے کوئی ایسی آفت آئے کہ ان کے دفتروں کو ٹھنڈا کرنے والی مشینوں میں کیڑے پڑ جائیں،اللہ کا کوئی نیک بندہ ان کے لیے مفت بجلی کی سہولت ختم کر دے،ان کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں،ان کو علاج کے لیے طویل قطار میں لگ کر چیک اپ کروانا پڑے،ان کو چنگ چی میں بیٹھ کرسفر کرنا پڑے،یہ حضرات لاری اڈوں پرخجل خوارہوں تو یقین مانیںاس ملک کے حالات دنوں میں بدل جائیں گے۔قرضوں کی واپسی کے لیے سارے کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنا سرا سر ظلم نہیں تو کیاہے۔عیاشیوں اور اللے تللوں پر پابندی لگائیں۔یقین مانیںاب تو عوام کی برداشت جواب دے چکی ۔اس سے پہلے کہ کوئی انسانی المیہ جنم لے اس معاملہ کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کی فوری ضرورت ہے
درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔اس کو موسمیاتی تبدیلی کا نام دے کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔اس حوالے سے اجتماعی کرتوتوں کا عمل دخل ہے ۔دانشور مشورہ دیتے ہیں کہ قوانین فطرت کے ساتھ چھیڑ خانی اچھی نہیں ہوتی کیونکہ فظرت کی عدالت سے کوئی ریلیف نہیں ملتا ۔پوری کی پوری سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ قوانین فطرت کی سب سے بڑی خلاف ورزی درختوں کا قتل عام ہے۔اندھا دھنددرخت کاٹے جا رہے ہیںلیکن نئے درخت لگانے پر توجہ نہیں۔ہاﺅسنگ سکیمیں کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں۔ان سکیمیوں کے دوران بے دریغ درخت کاٹے جاتے ہیں۔ کسان اچھی فصل کے لالچ میںدرخت ختم کر دیتا ہے ۔ محکمہ جنگلات کے عملہ کی ملی بھگت اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب سڑک کے ساتھ درختوں کی بہتات ہوتی تھی اور ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سرنگ میں سفر کر رہے ہوں۔لیکن اب سڑکیں بھی گنجی ہو گئیں میلوں دورکوئی سایہ داردرخت نظر آجائے تو غنیمت جانیںاور تھوڑی دیر اس کے سایہ میں بیٹھ جائیں ہو سکتا ہے اگلی بار وہ بھی نظر نہ آئے۔موٹر ویز کے ساتھ صرف ایک قسم کا درخت لگایا گیا جس کا نام سفیدہ ہے ۔کمال کا درخت ہے نہ پھل نہ سایہ اور نہ ہی درجہ حرار ت میں کمی کے لیے کوئی کردار ۔پالیسی سازوں کے فیصلوں پر داد تو بنتی ہے۔درختوں کی کمی اورجنگلات کی بربادی میں عوام نے بھی بڑا کردا رادا کیا ہے۔ہماری دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہر کام حکومت ہی کرے ۔برادران پاکستان کچھ خود بھی تو کرو۔درخت لگانے کا بڑا اجر اور ثواب ہے۔نفلی عبادات کی طرح۔ علمائے کرام اپنے خطبات میں اس عبادت کے حواکے سے بھی اسلامی تعلیمات بیان فرمائیں۔درختوں کے قتل عام کے حوالے سے بھی تو کوئی قانون بنائے۔ سیانے فرماتے ہیں کہ ایک بڑا درخت ڈیڑھ ٹن ٹھنڈی مشین جتنی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔ویسے جتنی ٹھنڈی مشینیں گزشتہ چند برسوں میں فٹ کی گئیں اور ان سے جو درجہ حرارت بڑھا اس کے اثرات بھلا کو ن بھگتے گا۔ہر سال کی طرح جب ایک دو ماہ بعد جب طوفانی بارشوں کا آغاز ہو گا ۔سیلاب کے ریلے سب کچھ بہا کر لے جائیں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی گردان کر رہے ہوں گے۔اللہ کے بندو اللہ پاک نے عقل سلیم دی ہے کچھ اس کا بھی تو استعمال کرو۔