فردوس عاشق اعوان کے سخن ستارے اور یکجہتی !

ایک شخصیت ایسی تھی کہ جب الیکشن ہار گئے تو ڈنڈا اٹھا لیا ....دراصل ان کے ہارنے کے بعد لوگوں کا تانتا بندھ گیا .... ایک کو رخصت کرتے تو دوسرا آ جاتا .... آپ کیسے ہار گئے؟ اور پھر لگاتار سوال کرکے افسوس کرنے والوں پر یہ شخصیت برس پڑی کہ اتنی تعداد میں اگر تم لوگوں نے ووٹ ڈالے ہوتے تو کیا میں ہارتا؟ .... یہ ملک عاشق اعوان تھے جو کہ ہماری وزیر اطلاعات و نشریات کے والد گرامی ہیں .... ملک عاشق کے بہادرانہ اور جرا¿ت مندانہ رویے ان کی صاحبزادی کے مزاج کا بھی حصہ ہیں اور شاید خارزار سیاست میں قدم جمانے کے لیے یہ سب ضروری بھی ہے اور پھر جلوس حیات کے شکستہ خوردہ اور مظلوم عوام کے لیے بھی بلند لہجوں کی ہی ضرورت ہے تاکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی سنجیدگی سوچا جا سکے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے والد کا یہ واقعہ پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے صحافیوں‘ شاعروں‘ ادیبوں کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کے مرحلے کے دوران ملک اعظم نے سنایا۔ کھانے کی اس میز کے گرد تیس کے قریب افراد کا گروہ موجود تھا جو کہ تلہ گنگ ‘ چکوال ‘ میرپور آزادکشمیر ‘ راولاکوٹ ‘ گوجرخان ‘ ٹیکسلا ‘ واہ اور پھر لاہور سے آنے والے فرید سنگت کے چیئرمین ملک سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ یہ سب افراد اس لیے یکجا تھے کہ میری شاعری کی کتاب ”سخن اس کے ستارے ہیں “ کی تقریب پذیرائی میں شرکت کرنا مقصود تھا جوکہ اسلام آباد ہوٹل میں منعقد ہوئی اور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اسی تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ تقریب کی صدارت سینئر افسانہ نگار منشا یاد نے کی جبکہ شبنم شکیل ‘ جلیل عالی ‘ جمیل یوسف ‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور حمید شاہد مہمانان اعزاز اور مکالہ نگار کی حیثیت سے سٹیج پر درخشاں ستاروں کی طرح موجود تھے اور جنہوں نے اپنے خوبصورت اور زریں خیالات کے اظہار سے اس تقریب کو چار چاند لگا دئیے۔ تقریب میں طاہرہ اور ذیشان کے جلو میں مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات اور میڈم خولہ کی ہمراہی میں بحریہ یونیورسٹی کے طالب علموں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور یوں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھنے اور اردو زبان و ادب کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کا فرض بھی ادا ہوا .... اور FACT تنظیم نے نوجوانوں کے سروں پر سے یہ گلہ بھی اتار پھینکا کہ یہ لوگ ”نیٹ“ پر یا ”موبائل فونز“ پر مصروف رہتے ہیں اور یہ پھربات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اگر نوجوانوں کو مناسب پلیٹ فارم پر ساتھ لے کر چلا جائے تو مستقبل کے یہ نوجوان قدم سے قدم ملا کر پورے جوش و جذبہ کے ساتھ
کھڑے رہتے ہیں۔ مگر جانے سے پہلے ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے اپنی تقریر میں اس محبت کا اظہار کیا کہ جو دہنگ لہجوں والی سیاستدان خاتون کے بحیثیت عورت ملائم جذبوں کے اظہار پر مشتمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ شاعرہ نے مجھے OWN کرکے اعزاز بخشا ہے جبکہ ہم نے تو انہیں اس وقت ہی دل میں بیٹھا لیا تھا کہ جب وہ سپیکر اسمبلی کو شکست دے کر پورے اعتماد کے ساتھ اسمبلی میں پہنچی تھیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ سیاسی طور پر انہیں کیا کرنا چاہیے مگر آج پاکستان خواتین کو تحریک پاکستان کی خواتین کی طرح سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پوری سچائی کے ساتھ تسلیم کیا کہ سیاستدانوں کا دلوں سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ ذہنوں اور اعصاب کی جنگ میں مبتلا رہتے ہیں .... مجھے خیال آیا کہ کاش ہمارے سیاستدانوں ذہنوں پر حکومت کرنے کی بجائے دلوں میں رہنا سیکھ لیں تو مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں اور پھر ذہنوں اور اعصاب والا کام تو ویسے بھی امریکہ کا ایجنڈا ہے پاکستانی نہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بہت اچھی بات کہی کہ مسلمان ممالک کی خواتین کو بھرپور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہی مثبت سوچوں اور سوالوں کے ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے اور پاکستان کے مستقبل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ تلخ موسموں میں بھی خوشبو¶ں سے مہکتی یہ تقریب اختتام کو پہنچی اور لوگ فیکٹ تنظیم کے صدر سعید اختر کو پاکستان کے مختلف شہروں سے صحافیوں‘ شاعروں اور ادیبوں کو اکٹھا کرنے پر مبارکباد دے رہے ہیں کیونکہ آج اسی یکجہتی کی سب کو ہی ضرورت ہے!

ای پیپر دی نیشن