پنجاب اور بلوچستان اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوا۔ قومی اسمبلی میں اقتدار کا ہما سردار ایاز صادق کے سر پر بیٹھا جو ہیلے کالج کے اولڈ سٹوڈنٹس ہیں۔ متوقع وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ہیلے کالج کے سٹوڈنٹ ہیں۔ یقیناً پروفیسر خواجہ امجد سعید خوش ہو رہے ہوں گے کہ ان کے طلبہ کتنے اچھے اچھے مقامات پر فائز ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ پہلے سپیکر کو صدر کہا جاتا ہے۔ چنانچہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے صدر تھے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے آج بہت خوبصورت الوداعی تقریر کی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد کو چند جملوں سے اعتراض بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے قومی اسمبلی کے امور کو بہت اچھے انداز میں چلایا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسمبلی کے ایک سال تک سپیکر رہے۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی سپیکر بننے کا موقع ملا لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ سردار ایاز صادق سب سے کامیاب سپیکر ثابت ہوں گے۔ اس کا اندازہ ان کے پہلے خطاب کے صرف ایک جملے سے ہو جاتا ہے جب انہوں نے کہا کہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نامزدگی پر ضرور منتخب ہوا ہوں لیکن قومی اسمبلی میں بطور سپیکر میرا کردار غیرجانبدارانہ ہو گا اور میں پورے ایوان کا سپیکر ہوں اور میرے لئے تمام ممبران برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیمیکلز کا بزنس کرنے والے سپیکر سے امید ہے کہ وہ اس مرتبہ قومی اسمبلی کے تمام ممبران کو قانون سازی اور قومی اسمبلی میں بھرپور شراکت کے لئے تیار کریں گے تاکہ کسی کو آئندہ یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ قومی اسمبلی میں اتنے ممبران نے پانچ سال تک صرف مراعات حاصل کیں اور قانون سازی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
پنجاب اسمبلی میں تجربہ کار اور زیرک سیاستدان رانا اقبال دوسری بار سپیکر بن گئے ہیں۔ اگرچہ بقول رانا ثنااللہ راجہ ریاض جیسے زندہ دل ممبران کی کمی تو محسوس کی جائے گی لیکن ہر اسمبلی میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جو بات سے بات نکال کر ایوان کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ اس مرتبہ امید ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بھی قانون سازی کا عمل تیز رہے گا کیونکہ وقت کم ہے اور عوامی مسائل زیادہ ہیں۔ عوامی مسائل سے یادآیا کہ محمد شہباز شریف کو بھی وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے نامزد کر دیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت پہلے ہی سبز جھنڈی دکھا چکی ہے۔ اس لئے اس بار محمد شہباز شریف ایک تبدیل وزیراعلیٰ نظر آئیں گے۔ دراصل عوام نے سابقہ پانچ سال کی کارکردگی دیکھنے کے بعد اب اپنی توقعات میں اضافہ کر دیا ہے اور محمد شہباز شریف کی عادت ہے کہ وہ بھی کام کرنے کا چیلنج بہت خوشی سے قبول کرتا ہے۔ عوام نے دیکھ لیا کہ جب ڈینگی بخاری وبا پھیلی تو شہباز شریف نے چوبیس گھنٹے کام کر کے اس پر قابو پایا لیکن دوسری طرف نگران حکومت کی آنکھوں کے سامنے معصوم بچے خسرہ کی وبا سے دم توڑتے رہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ عوامی بہبود کے منصوبوں کو رد کرنے کی مثال اس سے بڑی کیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں کروڑوں کا فنڈ موجود ہے لیکن ٹیپا کو لاہور کے ٹریفک اشارے شمسی توانائی سے چلانے کی اجازت نہیں دی جبکہ اس پر صرف چھ کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے اور ماہانہ بجلی کے بلوں کی مد میں لاکھوں کی بچت ہوتی تھی۔ اب ہر کسی کو انتظار ہے کہ محمد شہباز شریف اپنی سیٹ پر بیٹھ کر دوبارہ عوامی خدمت کا سلسلہ شروع کرے۔