اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ پاکستانیوں بالخصوص حقیقی نظریاتی مسلم لیگیوں کے لیے بڑی ابتلاءو آزمائش کا عشرہ تھا۔ 12اکتوبر 1999ءکو جب مسلم لیگ کی حکومت کو ختم کیا گیا اس وقت ہمارا ملک لوڈشیڈنگ اور ڈرون حملوں جیسی لعنت سے پاک تھا۔ بدامنی اور انارکی سمیت یہ تمام تحائف اسی دورِ آمریت کے دیے ہوئے ہیں۔ پاکستانیت سے عاری جماعتوں اور گروہوں کی مکاری نے ہماری بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ ہم بین الاقوامی سطح پر اپنا وقار گنوا بیٹھے ہیں کیونکہ ہمارا اندرونی خلفشار بڑھتا جارہا ہے۔ جمہوریت کی ایک نئی اور من گھڑت صنف جسے مفاہمتی جمہوریت کا نام دیا گیا اس نے سیاسی نظام کا خوب بیڑہ غرق کیا اور مفاد پرستی وبلیک میلنگ کو عام کیا۔ مسلم لیگیں جوکئی دھڑوں اور ناموں سے جُڑ کر اپنی اپنی دکان سجائے ہوئے ہیں وہ جتنا بھی دامن سمیٹیں اس ہونے والی تباہی کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ م‘ ن‘ ق اور ج کے چکر میں الجھ کر حضرت قائداعظم کی اصل مسلم لیگ کا چہرہ ہی مسخ کردیا گیا ہے۔ ماضی قریب میں بہت سے محب وطن پاکستانیوں نے اپنے دردِ دل کی دوا کرتے ہوئے اس حوالے سے آواز بھی بلند کی۔ ان میں ایک انتہائی توانا اور طاقتور آواز جناب مجید نظامی کی ہے۔ نظامی صاحب نے میاں نواز شریف‘ چوہدری شجاعت حسین‘ پیرپگاڑا سمیت شخصی مسلم لیگوں کے بزعم خود قائدین شیخ رشید‘ اعجاز الحق‘ حامد ناصر چٹھہ وغیرہ سب کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کا بارہا کہا۔ نظامی صاحب کی اس آرزو اور بے لوث کاوش پر یہ لوگ کتنے عمل پیرا ہوئے سب جانتے ہیں اور نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اقتدار کے حصول کے لیے موزوں ترین سیڑھی مسلم لیگ ہی ہے۔ وطن عزیز نے جس قدر بھی معاشی و معاشرتی مسائل ہیں ان سب کا مقابلہ اتحاد و اتفاق کی طاقت سے کیاجاسکتا ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کو اللہ رب العزت نے شاندار کامیابی سے نوازا ہے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ وفاقِ پاکستان پر اپنی حکومت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے جارہی ہے۔ یہ کامیابی دراصل پاکستان کے عوام کا مسلم لیگ پر اظہارِ اعتماد ہے۔ اس مسلم لیگ کی قیادت میاں نوازشریف کے ہاتھ میں ہے وہ بلاشبہ سب سے بڑے قائد بن کر اُبھرے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف توانائی بحران پر قابو پانے اور ملک کی تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ ساتھ ایک معمولی سا احسان یہ بھی کردیں کہ چھوٹی بڑی تمام پرانی رنجشیں بھلا کر تمام مسلم لیگیوں کو کھلے دل سے سینے سے لگائیں اور آنے والی نسلوں کو ایک مرتبہ پھر قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کی ایک مسلم لیگ عطا کردیں تو ہمارا مستقبل تابناک ہوگا‘ ہماری سیاست مضبوط ہوگی۔ مسلم لیگ کے یکجا اور متحد ہونے کا سب سے پہلا اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان کے وہ بہی خواہ جو مسلم لیگ کی کمزوری اور بٹوارے سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں وہ سب خائب و خاسر ہونگے۔ اُن کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ رہی بات قیادت کی تو میاں نواز شریف کے لیے موجودہ صورتحال سے زیادہ موزوں موقع پھر شاید کبھی نہ آئے۔ ظاہر ہے کسی بھی قیمت یا شرط پر مسلم لیگی اکٹھے ہوں تو وہ سب قیادت و سربراہی کا سہرا میاں نواز شریف کے سر ہی باندھیں گے۔ میر ظفر اللہ جمالی جیسے لوگ جو انفرادی طور پر نواز شریف کی قیادت کو قبول کررہے ہیں اُن سمیت تمام چھوٹے بڑے دھڑے باز لیڈر سرنڈر کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ابتداً ڈوری اور رسی میاں نواز شریف نے ہی ہلانی ہے پھر انشاءاللہ سب جڑتے جائیں گے اور طاقتور بھی ہوتے جائیں گے۔ پاکستان کو قائم ہوئے پون صدی ہونے کو ہے اب بھی کچھ ایسی شخصیات موجود ہیں جنہوں نے اس چمن کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ ایسے تمام بزرگوں کی خواہشوں کے احترام کو بجا لانے کا قرض میاں نواز شریف کو فوری ادا کردینا چاہیے اور اپنی حکومت کے افتتاحی سیشن میں ہی قوم کو ایک مضبوط و متحد مسلم لیگ کا تحفہ دینا چاہیے۔
اگر مسلم لیگیں ایک ہوجائیں !
Jun 04, 2013