الیکشن 2013ءٹیکنیکل اور سٹریٹجک ہیں۔ اس کے نتائج غیر متوقع مگر خوش آئند ہیں۔ توقع مخلوط حکومت کی تھی نتیجہ مضبوط اور غیر مخلوط حکومت کا قیام ہے۔ پچھلے الیکشن 2008ءکے بعد وفاق اور صوبوں ماسوا پنجاب میں امریکہ اور بھارت نواز سرکار سازی ہوئی۔ اب وفاق اور صوبوں ماسوا سندھ میں امریکہ مخالف یا مزاحمتی سرکار سازی ہے جبکہ نئی حکومتوں کا بھارت کے ضمن میں رویہ، اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے مختلف مگر خاصا نرم ہے۔ یہ امن کی آشا، پاک بھارت تجارت اور دوستی کے خواہاں ہیں جبکہ قوم اور قومی اسٹیبلشمنٹ کافی حد تک امریکہ مخالف اور بھارت کے ساتھ روابط میں حقیقت پسندی کے اصول کی حامی ہے۔ یہ غیر مشروط دوستی، تجارت اور بھارت کو یکطرف پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی پالیسی کا ازسرنو جائزہ چاہتی ہے نیز آبی جارحیت، کشمیری مسلمانوں پر فوجی مظالم، بلوچستان اور سندھ میں بھارتی مداخلت اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کا سدباب بھی چاہتی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں اے این پی کی انتخابی شکست بھارت کیلئے افغانستان میں مسائل بڑھائے گی کیونکہ کے پی کے اور قبائلی علاقے بھارت اور نیٹو سپلائی کی راہداری ہیں جبکہ پاکستان کے امریکہ و بھارت سے تعلقات کا سنگ میل ریمنڈ اور سربجیت ہے۔ موجودہ الیکشن قومی مفاد، عالمی اصول اور عوامی بہبود کی بنیاد پر ہوا ہے۔ فی الحقیقت یہ سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ پالیسی کا نتیجہ ہے جس میں نہ صرف امریکہ بلکہ اکھنڈ بھارت سے نجات حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ موجودہ الیکشن نتائج کا بنیادی پہلو شریف برادران کی سادہ بلکہ کسی حد تک بھاری اکثریت کا حاصل کرنا ہے جس کا پہلا ممکنہ نتیجہ زرداری کیلئے آئندہ صدارتی مدت کیلئے منتخب ہونا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ زرداری کیلئے جلا وطن سیاستکار کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی واپسی اور اسیری بھی قومی اسٹیبلشمنٹ کی کسی حد تک اصولی رواداری اور پالیسی کی تبدیلی کی عکاس ہے۔ اب پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لئے افراد اور احزاب سے زیادہ قومی مفاد کو ترجیح حاصل ہے غیر متوقع واقعہ، حادثہ سارا منظر بدل سکتا ہے وگرنہ چند واضح رحجانات درج ذیل ہیں۔ امریکہ کے خطے میں 3 فوری اہداف ہیں کرزئی کے افغانستان میں امن کا قیام۔ امریکہ نواز افغانستان کی ترقی اور استحکام کیلئے پاکستان کی تجارتی راہداری پر من مانی کرنا، نیز بھارت کو پاک افغان خطے کا چوکیدار یعنی علاقائی سپر پاور بنانا اور پاکستان سے تسلیم کرانا ہے۔ امریکہ مذکورہ اہداف کے حصول کے لئے بنیادی کام یعنی پاک افغان تجارتی راہداری معاہدہ ، پاک بھارت تجارت اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی پالیسی وضع کر رکھی ہے جبکہ قوم اور قومی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی بھی واضح ہے کہ بھارت امریکہ کی ساز باز کا توڑ کرنااور پاک چین دوستی کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں گوادر کی عملداری چین کے حوالے کرنا اور پاک افغان تجارتی راہداری میں چین کو شریک کرنا شامل ہے جبکہ امریکہ و بھارت کو پاک افغان خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی، دفاعی اور سٹریٹجک عملداری ناپسند ہے۔ امریکہ، روس، یورپی یونین بھارت کو علاقائی عالمی تجارتی مرکز بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ بھارت کے ساتھ فری تجارت سٹریٹجک شراکت اور مشترکہ دفاع کے معاہدے کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کی خطے میں بالا دستی کے خلاف پاکستانی قوم اور قومی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ دو حریف مجاہدین اور چین ہیں جبکہ پاکستان کی سرزمین مستقبل کے عالمی نظام میں تجارتی اور دفاعی راہداری ہے اور یہی اوصاف پاکستان کو مستقبل کی عالمی طاقت بنانے کا باعث بھی ہیں۔ مذکورہ بالا خارجی، دفاعی اور تجارتی منظر مستقبل کی کلید ہے جس کے لئے علاقائی اور عالمی حریف اپنے اہداف کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزارت خارجہ اور دفاع میاں نواز شریف بحیثیت وزیراعظم اپنے پاس رکھیں گے۔ علاوہ ازیں بھارت، امریکہ، روس یورپی یونین اور دیگر ممالک پاکستان میں تعلیم، صحت اور تہذیبی ہم آہنگی کے لئے امداد دیتے ہیں جو بنیادی طور پر معاون ممالک کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنے کے علاوہ ہمنوا نسل تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یہ امور ایسے ہیں جس کے درمیان نئی حکومت اور قومی و بین الاقوامی قوتوں کے درمیان رسہ کشی رہے گی جو عدم توازن کے باعث سنگین صورتحال میں بھی ڈھل سکتی ہے۔ڈرون حملے نئی حکومت اور عمران خان کے لئے کڑا امتحان رہیں گے۔ شریف برادران کی خوبی ہے کہ یہ دین اور وطن کے کھلے باغی نہیں۔ محنتی اور دیانتدار ہیں کرپشن سے پاک ہیں۔ ڈینگی کا خاتمہ اور میٹرو بس سروس کی خدمات تاریکی میں روشن مینار ہیں۔ قوم ان کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر امید کرتی ہے کہ بجلی کے بحران مہنگائی، غربت امن عامہ اور عوامی بہبود کے امور کامیابی سے سرانجام دیں گے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی، شکست خوردہ پی پی پی کا دوسرا روپ ہیں۔ پی پی پی کا سارا منحرف ووٹ پی ٹی آئی کو ملا ہے جبکہ الیکشن میں غیر معمولی ٹرن آﺅٹ نے شریف برادران کو فائدہ پہنچایا ہے۔ آئندہ ایم کیو ایم اور پی پی پی پر مزید دبا¶ رہے گا۔