ملکی سلامتی کے نام پر عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا نظریہ ضرورت ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے دلائل مکمل کر لئے گئے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل آج جمعرات کو شروع ہونگے۔ 2 ججز کی رخصت کی وجہ سے مقدمے کی مزید سماعت کا آغاز 16 جون سے کیا جائے گا۔ دوران سماعت جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف عدلیہ کا بالکل اختیار نہ ہونا خطرناک ہو گا۔ ملکی سلامتی کے نام پر عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا نظریہ ضرورت ہے۔ آئین کا دفاع سپریم کورٹ اس صورت میں کرنے میں بااختیار ہے جب اس پر حملہ کیا جائے گا۔ آئین کے تحفظ کے لئے ہم کس حد تک جا سکتے ہیں اس بارے معاملات واضح نہیں۔ اگر ہم پر ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو کیا پارلیمنٹ کے اختیار کا تحفظ ہماری ذمہ دار نہیں۔ بھارت نے بھی حال ہی میں ہماری طرز پر ججز کی تقرری کا جوڈیشل کمشن بنانے کی ترمیم کی ہے جو چیلنج کی گئی ہے۔ آئین عوام کا بنایا ہوا ہے اوراب ہم ان سے کہیں کہ آپ نے آئین بناتے ہوئے بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین نے اختیارات میں توازن رکھا ہے ہم مکمل اختیارات رکھنے کے باوجود کسی کو جوابدہ ہیں۔ اگر ریاستی آئین کو کوئی خطرہ ہے یا ریاست خطرے میں ہے تو کیا عدالت اس خطرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آئینی ترامیم کالعدم یا اس کی توثیق کر سکتی ہے۔ ہم آئینی ترامیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے۔ کیا دوسرے لفظوں میں اس ریاست میں نظریہ ضرورت زندہ ہے۔ حفیظ پیرزادہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیارات کے حوالے سے شتر بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے اور آئین کے مطابق اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے جبکہ حامد خان نے فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل میں کہا ہے کہ ملک میں فوجی عدالتیں بنانا کوئی نئی بات نہیں مگر سپریم کورٹ ان کو پہلے بھی غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے چکی ہے یہ آرٹیکل 2 اے، 8، 25، 19، 175، 10 اے سمیت دیگر آرٹیکلز سے متصادم ہے۔ انہوں نے یہ دلائل چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو دیئے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے بدھ کے روز دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حامد خان دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آپ کے دلائل کے بعد ہی دلائل کا آغاز کریں گے۔ پیرزادہ نے کہا کہ انہوں نے آئین کی تاریخ بیان کی ہے۔ سپریم کورٹ کی لائبریری میں ایک کتاب موجود ہے جس میں اسمبلی کی کارروائی بارے تذکرہ کیا گیا ہے۔ رضا ربانی نے کہا تھا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اگر آپ یہ کہیں کہ یہ 19 ویں ترمیم سے ختم ہو چکا ہے تو یہ آپ دیکھ سکتے ہیں آپ پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کے خلاف نہیں جا سکتے لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ (آپ ہماری معاونت کریں کہ کس طرح کے معاملات میں ہم مداخلت کر سکتے ہیں۔ ہمیں بالکل ہی اختیار نہیں اگر ہے تو کتنا۔ اگر بالکل اختیار نہیں ہے تو یہ خطرناک بات ہے۔ پیرزادہ نے کہاکہ ہمارے ملک میں کبھی شفاف اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے جب بھی اس ملک کو سلامتی خطرات لاحق ہوئے عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ کیا یہ نظریہ ضرورت ہے اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ نہں یہ آئینی اختیار ہے جو آپ نے استعمال کیا۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ یہ کوئی دوسری فورس بھی استعمال کر سکتی ہے، پیرزادہ نے کہا کہ آمروں کے اقدامات کو کسی نے بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ اگر سٹیٹ کو خطرات لاحق ہوتے ہیں تو عدلیہ اس میں مداخلت کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ یہی ہمارا اختیار ہے یا کچھ اور بھی ہے۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ براہ راست حکومت فارغ نہیں کر سکتے (مگر آپ کو دیگر کئی اختیارات حاصل ہیں)۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ (ہم آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں قرار دے سکتے مگر آپ کے مطابق حالات کے مطابق فیصلے ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب ریفرنس آئے گا تو تب ہی ایڈوائزری اختیار استعمال ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے ہٹ کر بھی رائے دے سکتی ہے۔ پیرزادہ نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریاست کو بچانا نظریہ ضرورت ہے۔ پیرزادہ نے کہاکہ یہ ذمہ داری صرف عدلیہ نہیں شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کا تحفظ کریں۔ (چیف جسٹس نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں جو آرڈر جاری کیا گیا تھا اس کے حوالے سے عدالت نے اپنا ایڈوائزری اختیار ازخود استعمال کیا تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 199 اور 184 کے اختیار مساوی ہیں کیا۔ ایسی کوئی آئین پرویژن موجود ہے کہ جس کے تحت غیر آئینی اقدام کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ سوائے آرٹیکل 199 کے۔ حالانکہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی آئینی پرویژن موجود نہیں۔ کیا ہم کسی معاملے کو غیر آئینی قرار دے سکتے ہیں کیا ہم آئین کا دفاع کر سکتے ہیں۔ آئین کو محفوظ کرنے کے لئے ہم کس حد تک جا سکتے ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے حلف میں کہہ رکھا ہے کہ آپ آئین کا دفاع اور اس کو محفوظ رکھیں گے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ہمیں اس ملک کے ہر اہم ستون کو محفوظ رکھنا ہو گا یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آئینی ترمیم کے پارلیمنٹ کے اختیار کا بھی تحفظ کریں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ریاست کو لاحق خطرہ کیا آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے کیا اس نظریئے کے تحت آئینی ترمیم کی توثیق کی جا سکتی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ کا کوئی اختیار نہیں اور کہا کہ آپ عدلیہ کی آزادی کی وجہ سے آئینی ترمیم ختم نہیں کر سکتے۔ پیرزادہ نے کہا کہ یہ آئینی ذمہ داری آپ کو آئین نے دی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ریاست کو خطرہ ہے کیا اس خطرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے یا اس خطرے کے پیش نظر ترمیم کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔ پیرزادہ نے قرار داد مقاصد پڑھ کر سنائی کیا ریاست غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے آئین سازی کر سکتی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکومت کر سکتے ہیں اگر آپ اس کے خلاف جائیں گے تو یہ بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو گی۔ آرٹیکل 8 میں ہر بات واضح ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وکلاء محاذ کیس میں قانون میں ترمیم آئین میں ترمیم سے مختلف ہے اور یہ پہلو پہلی بار 1969 میں اختیار کیا گیا۔ اس وجہ سے بھارتی آئین میں ترمیم کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ قانون میں ترمیم کو آئین میں ترمیم میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ پیرزادہ نے کہا کہ بھارت ایک مختلف ملک ہے اس کی آبادی زیادہ ہے ان کے اپنے معاملات ہیں ہمارے اپنے مسائل ہیں۔جسٹس آصف نے کہا کہ بھارت نے بھی حال ہی میں ججز کے تقرر کے لئے جوڈیشل کمشن کے قیام کے لئے ایک ترمیم کی ہے۔ محب وطن قوتیں بھی آپ کے اختیارات کی قائل ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ یہ اختیار آپ کے پاس ہے اور رہے گا۔ آپ ابتدائی دنوں سے کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ آئین کو بچانے کے لئے ہے اور یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ آئین کو بچائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت تمام تر اختیارات پارٹی ہیڈز کو دے دیئے گئے اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہونے کے باوجود بھی بااختیار تھے اور باہر بیٹھ کر اسمبلی چلا رہے تھے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایسے رہنما نہ صرف منتخب کردہ نہ تھے بلکہ قابل بھی نہ تھے پیرزادہ نے کہا کہ ایک بچہ بھی پارٹی کا سربراہ بن سکتا تھا، جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا بھی ایک بیک گرائونڈ ہے ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے جب اقتدار سنبھالا تو نواز شریف کو سعودی عرب بھجوا دیا۔ الطاف حسین یوکے میں تھے اور بے نظیر کو بھی ملک میں نہ آنے دیا گیا یہ بھی ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر کوشش کی کہ سیاسی جماعت ختم کی جائے پارٹی کے اندر گروپس بنائے گئے اور کنگ پارٹی بنائی اور جس نے انتخاب بھی جیتا پارٹی ہیڈز نہ تھے مگر ان کے لوگ پارلیمنٹ میں تھے ، اور پارٹی سے باہر رہ کر پارٹی کو کنٹرول کررہے تھے شاید اسی وجہ سے 63 اے لایا گیا .پیرزادہ نے کہا کہ مجھے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا ہم نے لوگوں کو بتایا ہے کہ یہ جو ترمیم کی گئی ہے وہ صحیح ہے۔ حامد خان نے کہا تھا کہ میں ایک قانون کے ساتھ سیاسی رہنما بھی ہوں ممکن ہے سیاسی بیداری بڑھے آپ سب کچھ پارلیمنٹ کو نہ دیں کچھ اپنے پاس بھی رکھیں۔ آپ بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن