نیتن یاہو فلسطینیوں کیساتھ امن نہیں چاہتے: اوباما

واشنگٹن+ تل ابیب (آن لائن/ بی بی سی) باراک اوباما نے کہا ہے کہ فلسطین میں قیام امن کے لیے اسرائیلی رہنمائوں کو مزید عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ کیو نکہ عالمی برادری کومسئلہ فلسطین کے 2 ریاستی حل کیلئے اسرائیل پراعتماد نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیلی ٹی وی ’’چینل 2‘‘ کو انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے باقی رہ جانے والے دور صدارت کے دوران کوئی امید نظر نہیں آ تی کہ مسئلہ فلسطین حل ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن نہیں چاہتے۔ امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی کی حمایت کے فیصلے پر نظرثانی کرسکتا ہے، تاہم مشرق وسطیٰ میں اس کی سکیورٹی کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے پر اسرائیل عالمی برادری میں اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ فلسطین میں قیام امن کے حوالے سے ہم آج تک یورپین ممالک کے بیانات کو پس پشت ڈالتے رہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی برادری کی اس رائے کو مزید پختہ کر دیا ہے کہ اسرائیل امن کی حمایت نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں فلسطینی ریاست کا قیام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس بیان کے بعد اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا کہ وہ مشروط طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہیں۔ تاہم صدر اوباما نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کا ابتدائی بیان کافی واضح تھا۔ صدر اوباما نے کہا: ’پہلے ہی عالمی برادری کا خیال ہے کہ اسرائیل دو ریاستی حل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ پھر اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان نے عالمی برادری کے اس خیال کو مزید پختہ کردیا کہ اسرائیل اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘ یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو نے انتخابات جیتنے کے لیے فلسطینی ریاست کے خلاف بات کرتے ہوئے قوم پرست اسرائیلیوں کو متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل میں عرب شہری بڑی تعداد میں پولنگ کے لیے جا رہے ہیں۔ نتن یاہو کے فلسطینی ریاست کے قیام کے بیان کے بعد اوباما نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی جانب امریکی پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔ اوباما نے اسرائیل کی ’خوف کی سیاست‘ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس قسم کی سیاست فلسطینیوں کے ساتھ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ’میرے خیال میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو وہ شخص ہیں جو پہلے سکیورٹی کے بارے میں سوچنے کی جانب مائل ہیں، جو شاید سوچتے ہیں کہ امن کی بات کرنا معصومانہ ہے۔ جو فلسطینی ساتھیوں میں خوبیوں کو دیکھنے کے بجائے خامیاں دیکھتے ہیں۔ اس لیے میں اس وقت یہ سوچتا ہوں کہ یہ سیاست اور یہ خوف حکومتی پالیسیاں بنا رہے ہیں۔‘ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اوباما نے اسرائیلیوں سے اپیل کی کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے فوجی نہیں سفارتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کرنے کے حوالے سے واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن