جمہوری تماشا اپنے عروج پر ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو چت کرنے کیلئے ہر دائو پیج استعمال کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے صدر ممنون حسین کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے ہلا گلا کو شاید اسی پس منظر میں تماشا قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں اس کی پرواہ نہیں اور یہ کہ وہ اپنا کام کرتے جائیں گے مگر تماشا شاید اتنی جلدی ختم نہ ہو۔ عمران خان کا توڑ کرنے کیلئے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کا معاملہ اور بنی گالہ کے گھر کی خریداری کی منی ٹریل کے ثابت کرنے کے ایشو نے گزشتہ روز تک سونامی کی سی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ دو تین دن تک پی ٹی آئی کی قیادت سخت پریشان رہی‘ اس لئے کہ عدالت کے سوالات کا جواب سامنے نہیں آرہا تھا۔ اب عمران خان کی سابقہ شریک حیات جمائمہ نے برسوں پہلے کے بنک ریکارڈ مل جانے کی نوید سنا کر ان کا بوجھ کچھ ہلکا کر دیا ہے مگر فارن فنڈنگ کا ایشو اب بھی باقی ہے۔ دوسری طرف میاں نوازشریف کے بیٹوں کی جے آئی ٹی میں تسلسل کے ساتھ پیشی اور ساتھ ساتھ بعض رہنمائوں کی طرف سے عدالت اور جے آئی ٹی کو بالواسطہ دھمکیوں نے جمہوری تماشے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ پیپلزپارٹی جو کبھی کرپشن کے حوالے سے تبصروں اور خبروں کی زد میں رہتی تھی۔ اب سر اٹھا کر اس تماشے کو دیکھ رہی ہے۔ جمہوریت کی بقاء میں دلچسپی لینے والے حلقوں کا ایک بڑا حصہ یہ رائے رکھتا ہے کہ جمہوری بحران کے ان لمحات میں مسلم لیگ(ن) کو ایک بار پنجاب حکومت کی کارکردگی اور وزیراعلیٰ شہبازشریف کی حکمت عملی کا سہارا سنبھالے ہوئے ہے۔ جمائما اگر عمران خان کا سہارا بنی ہے تو وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف اس وقت مسلم لیگ(ن) کی مجموعی ساکھ کیلئے سہارا بنتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے ان کی طرف سے بہت سے میگاپراجیکٹ تیزی سے زیر تکمیل ہیں۔ یوں تو صوبہ بھر میں بہت سے منصوبے زیرتکمیل ہیں لیکن صرف لاہور کو دیکھا جائے تو میٹرو بس سروس کی طرح اورنج لائن ٹرین کا کام بقول خواجہ حسان 70فیصد کے لگ بھگ مکمل ہوچکا ہے اور جونہی عدالت سے اجازت ملتی ہے باقی کا کام بھی چند ماہ میں مکمل ہوسکتا ہے۔ نہر لاہور ہمیشہ کی طرح آج بھی شہر کی جان ہے۔ سیاسی بحران کے دوران پنجاب حکومت نے حال ہی میں پہلے تو چوبچہ پھاٹک اور ناچ گھر پھاٹک کے اوپر سے فلائی اوور کے اس منصوبے پر کام شروع کروا دیا جو نہ صرف یہ کہ لاکھوں شہریوں کا مطالبہ تھا بلکہ مشکل اور بہت زیادہ لاگت کے باعث تقریباً نصف کلومیٹر کے اس فلائی اوور کیلئے ماضی میں کوئی حکومت تیار نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی شاہراہ قائداعظم سے ہربنس پورہ (رنگ روڈ) تک نہر کے دونوں اطراف سڑک کی کشادگی کے کئی کلومیٹر حصے کے کام کا آغاز کروا دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں جب میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور اپوزیشن وزیراعظم کو دبائو میں آنے اور ان کے منظر سے ہٹنے کے اشارے اور پیشگوئیوں سے طوفان کھڑا کیے ہوئے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کا مضبوط اعصاب کے ساتھ کھڑے رہنا اور ایک کے بعد ایک بڑے ترقیاتی پراجیکٹ کا آغاز کرنا عوام کی تیز ترین خدمت کی بنیاد بھی بنا ہے اور ان کے پارٹی ورکروں میں حوصلہ بحال رکھنے کا سبب بھی ہے۔ اس حقیقت کو بھی سب تسلیم کرتے ہیں کہ 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی جیت کے دوسرے اسباب کے ساتھ ایک بڑا سبب وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے میٹرو بس سروس جیسے منصوبوں کی بروقت تکمیل اور اس سروس کا عملی مظاہرہ تھا۔ اگرچہ موجودہ جمہوری تماشے کو بعض لوگ جمہوریت کیلئے خطرہ بھی قرار دیتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ مغرب جیسی جمہوری فضا کیلئے اس طرح کے ہچکولے وقت کی ضرورت بھی ہیں۔ ایک مستحکم جمہوریت ماحول سے پہلے میدان کے تمام کرداروں کی فطری چھان پھٹک اور چھاننی میں سے گزرنے کا درمیانی عرصہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گا مگر یہ سب ضروری بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر کی اچھی جمہوریتیں اس عمل سے گزری ہیں‘ اور آخر میں اپنا ایک قطعہ پیش خدمت ہے:
بنا دو یادگار اب کے محبت کا سفر لوگو
اندھیروں میں دیے بجھنے نہ دو مقدور بھر لوگو
نہیں غم روشنی کا ساتھ دینے پر مٹے ہیں ہم
چلیں گے آنے والے تو اٹھا کے اپنا سر لوگو
صفیں باندھو اندھیروں کے مقابل استقامت سے
ہمارے دم سے آئے گی اگر آئی سحر لوگو