پاکستان کا قیام اللہ کا خاس کرم ہے ۔یہ بڑی بڑی نعمتوں سے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے ہم سے نعمتوں کی قدر ہی نہ ہوسکی ۔اس وطن کے بنانے والے اپنے حصے کا کام پورا کرکے اللہ کے پاس چلے گئے ۔پیچھے رہ گئیں جونکیں ۔ جو پچھلے ستر سالوں سے قوم کا خون چوس رہی ہیں۔ہم سے بعد میں آزاد ہو نے والے ملک آج ہم سے کہیں آگے ہیں ۔پاکستان بننے سے لے کر اب تک ہم سے جہاں اور بہت سی سنگین غلطیاں ہوئی ہیں ۔وہیں ہم سے یہ کوتائی بھی ہوئی ہے کہ ہم نے مستقبل کے لیے کبھی بھی کوئی جامع پلاننگ نہیں کی ہے ۔ڈنگ ٹپاو پالیسوں نے اس ملک کو آج ایک پھر اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے ۔ہمارا یہ فخر ہے کہ ہم نے ہمیشہ باہر والے دشمن کو ناکو ں چنے چبوائے ہیں ۔لیکن ہم شروع سے ہی اندرونی دشمنوں سے ہار تے رہے ہیں ۔لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔آج کی دنیا کو پانی کی کمی کا شدت سے احساس ہو چکا ہے ۔مگر ہم آج بھی اندرونی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ہمارا ازلی دشمن ایک ایک کر کے ہمارا سارا پانی روک رہا ہے ۔ہمارے دریا بہت عرصے سے خشک ہورہے ہیں۔لیکن اس طرف نہ تو ہماری حکومتوں نے کبھی کوئی توجہ دی ہے ۔نہ ہی خود کو ملک کا اصل سمجھنے والوں نے کبھی اس مسئلے کی شدت کو سمجھا ہے ۔کالا باغ ڈیم بنانے کا عمل جب شروع ہوا تو ہماری آستینوں میں پلنے والے دشمن کے ایجنٹوں نے اس کی مخالفت میں زمین آسماں ایک کردیا ۔آمر پرویز مشرف نے پہلے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا ۔مگر کچھ عرصے بعد ملک دشمن طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ کالا باغ منصوبہ ختم ہی کردیا جائے گا جبکہ 26مئی 2008 وفاقی وزیر پانی و بجلی پرویز اشرف نے کہا کہ یہ منصوبہ ملکی مفا د میں نہیں ہے اس لیے کالا باغ کبھی بھی تعمیر نے کیا جائے گا ۔یہ باتیں لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کل میرے بہت سے ہم وطن سوشل میڈیا پہ کالا باغ کے لیے لابنگ کر رہے ہیں ۔انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کے سیاہ سپید کے مالکوں نے ملک دشمنوں سے اندر کھاتے کیا کیا سمجھوتے کیے ہوئے ہوں گے ۔آج اگر اس ملک کو بنجر بننے سے بچانا ہے تو ہر گھر سے ہر کسی کو اپنے حصے کا کا م کرنا ہوگا ۔الیکشن سر پر ہیں ۔ابھی چند دنوں تک یہ سیاست دان آپ کے دروازوں پہ حاضر ہونے والے ہیں ۔جب یہ آپ کے سامنے حاضر ہوں تو ان کا گریبان پکڑ کے پوچھنا شروع کریں کہ ظالموں اپنے بچوں کو تو دوسرے ملکوں کی شہریت لے کے دے رہے ہو۔ہمارا قصور کیا ہے ہمیں بتاو ہمارے بچے کل کو کہاں سے اپنی ضرورت کا پانی حاصل کریں گے ۔کالا باغ حکومت پاکستان نے پانی کو زخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کو سارا سال سیراب کرنے کے لیے شروع کیا تھا ۔یہ منصوبہ التوا کا ایسا شکار ہوا کہ ابھی تک یہ اپنی تکمیل کے لیے راہ دیکھ رہا ہے ۔اگر یہ منصوبہ پنجا ب کی بجائے کسی دوسرے صوبے میں ہوتا تو شاید اس کی اتنی مخالفت نہ ہوتی ۔نہ کسی بدبخت کی لاشیں اس کے بنانے کی راہ میں حائل ہوتیں۔مگر ملک دشمنوں کے لیے پنجاب کے خلاف دوسری صوبے کے قوم پرستوں کو خوب استعمال کا ہنر آتا ہے ۔اب کیا کیا جائے ۔اب کالا باغ کے لیے ایک طرف زور و شور سے تحریک چلائی جانی چاہیے ۔تو ساتھ ہی پانی کے جو زریعے ہمیں میسر ہیں ان کی قدر کی جانی چاہے ۔ہم جانتے ہیں کہ ہر سال برسات میں ہمارا قیمتی پانی ہمیں تباہ و برباد کرتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے ۔اگر ہم آنے والی نسلوں کے لیے سوچنا شروع کردیں تو ہم بہت سے چھوٹے بڑے ڈیم ,جھلیں اور پانی کا زخیرہ کرنے والے منصوبے بنا نے ہوں گے۔جہاں جہاں جگہ خالی پڑی ہو ۔وہاں حکومت ,حکومتی ادارے اور عوامی نمائندوں کے اشتراک سے کم خرچ میں درخت لگانے شروع کیے جائیں ۔سڑکوں ,موٹر ویز کے اردگر ایک ترتیب سے سایہ دار درخت,خوشنما پودے اور پھول لگائے جاسکتے ہیں ۔گاوں کی پگڈنڈیوں پر ,شہر کوآنے والے رستوں پر گاوں کے چوکوں میں غرض ہر کہیں درخت لگانے کا سلسلہ شروع ہو جانا چاہیے ۔سوشل میڈیا پر تحریک سے عوامی شعور تو بیدار ہوسکتا ہے مگر اس گھمبیر مسئلے کا مقابلہ قوم بن کے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ہر گاوں سے ہر قصبے سے ہر شہر سے رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔جو اپنے اپنے علاقوں میں یہ نیک کام بنا کسی معاوضے پر انجام دینے لگیں ۔پچھلے دنوں ایک بڑے ٹی وی چینل پہ درختوں کی کمی کا رونا روتے ہوئے ایک معروف تجزیہ کار فرما رہے تھے کہ جتنے درخت کے پی کے حکومت لگانے کا دعوی کر رہی ہے اگر یہ سچ ہے تو وہاں کی آب و ہوا بہت جلد بدل جائے گی ۔عوامی نمائندوں سے یہ بھی پوچھنا شروع کریں کہ بھارت سے پانی کے تنازع پر دوغلی پالیسی کیوں اپنائی ہوئی ہے ۔سو دنوں کا پلان کرنے والے اور عوامی پریشر برداشت نہ کرسکنے والے کیا بھارت سے اپنے حصے کا پانی لے سکیں گے ۔پانی کی کمی کا بہترین حل پانی کا درست استعمال بھی ہے ۔انگریز پانی کی بوتلوں پر نبی پاکﷺ کی حدیث لکھنے پہ مجبور ہیں کہ’’ پانی ضائع نہ کرو چاہے تم نہر کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو‘‘شہروں کے ساتھ بننے والی ہاوسنگ کالونیاں ایک طرف زرعی زمینیں کھاتی جارہی ہیں ۔دوسری طرف بڑے بڑے پلازے اور شادی حالوں کی تعمیر سے درخت کاٹے جارہے ہیں ۔ضرورت ہے کہ نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق پہلے سے موجود شہروں سے ہٹ کے نئے شہر بسائے جائیں ۔آنے والے وقت میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا مسئلہ ہی ہوگا ۔یہ مسئلہ ساری دنیا کو درپیش ہونا ہے ۔جنہوں نے تیاری کر لی وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں گے باقیوں کے نصیب میں خشک سالی ,بنجر زمینیں اور بیماریاں ہوں گی ۔ابھی بھی کسی پارٹی کے منشور میں پانی کا مسئلہ ترجیعی بنیادوں پر نہیں ہے ۔درخت لگنے کا عمل کے پی کے سے شروع اگر ہوا ہے تو اسے پورے ملک میں پھیلانا چاہیے ۔مگر اس کے لیے حکومتی سرپرستی تو ہونا چاہیے مگر درخت لگانے کے نام پہ اپنی جھولیاں بھرنے کا عمل شروع نہیں کیا جانا چاہیے ۔
پاکستان زندہ باد ۔۔ پاک فوج پائندہ باد
درخت لگائیے پانی کا درست استعمال سیکھئے
Jun 04, 2018