وطن کے تمام سیاسی لیڈران اور ان کی پارٹیز اپنے اور اپنی جماعتوں کو سب سے بہتر اور بہترین کاگردان کرتے نہیں تھکتی ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جس کے لئے تانگہ پارٹی کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے باوجود اس حقیقت کے وہ اس سچائی سے انکاری ہیں۔ ان کے نزدیک ہم ہیں تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں۔
موجودہ وقت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ JUI فضل الرحمن، نیشنل عوامی پارٹی ، ق لیگ اور دیگر پارٹیز بھی موجود ہیں۔ 2018ءمیں ہونے والے قومی انتخابات کے لئے تمام تر سیاسی جماعتوں کے لیڈران صاحبان کے دعووں سے یہ لگ رہا ہے کہ یہ سب اپنی اپنی کمرکس رہے ہیں اور ہر ایک کے نزدیک وہی اور اس کی جماعت ہی ملک اور قوم کی خدمت کے لئے نمبرون اور فیورٹ ہے ایسی صورتحال میں عوام حیران بھی ہےں اور پریشان بھی کہ یہ سیاسی رہنماءہونے کے کیسے دعویدار ہیں جن کو صرف اپنے چند ماہ بلکہ چند دن پہلے کے بیانات، دعوے، پریس کانفرسز اور تقاریر تک یاد نہیں کہ کیا کہا اور کس کے لئے کہا تو ایسے لوگ کس طور ملک اور قوم کی خدمت کے دعووں کو یاد رکھ پائیں گے ۔ کیا ملکی سیاستدان 22کروڑ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں ۔ یا ان کی یادداشت کو کمزور سمجھ بیٹھے ہیں ہوسکتا ہے کہ ماضی میں صورتحال کچھ رہی ہو۔ لیکن آج کی حقیقت اور سچ یہ ہے کہ عوام واقعی باشعور ہیں اور اس کا عملی اظہار بھی وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے کرتے ہیں کہ بھولے سیاستدانوں ہم اب اتنے بھولے نہیں جو تم لوگ سمجھتے ہو۔۔۔ کون پاکستان کا خیر خواہ ہے ۔ کون اس کی ترقی و مضبوطی کا دشمن ہے۔ کون عوام کا حقیقی خدمت گار ہے یا ان کی ترقی و خوشحالی کا دشمن اور مخالف ہے اور کون مصنوعی نعروں کا سہارا لے کر اپنی سیاست کررہا ہے جوکہ کمزور عارضی ہوتی ہے اصل کام عوام کے دلوں میں گھر کرنا ہے اور موجودہ سیاسی صورتحال میں لگتا ہے کہ نواز شریف اس راستہ پر کامیابی کا قدم رکھ چکے ہیں۔
نواز شریف کے مخالفین بظاہر بڑے بڑے دعووں اور مخالف نعروں کے تیروں سے لیس ہیں اور اب ان دنوں یہ لوگ میاں نواز شریف پر کچھ ایسے طور اور عجیب و غریب انداز سے گرج برس رہے ہیں اور کچھ یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ لوگ خود لوگوں سے اپنے لئے ہمدردی کا چھپے چھپے سوال کررہے ہیں۔
تھوڑے عرصہ پہلے ہی بلاول زرداری نے کہا کہ عدل کے پہرے دارو کسی کو تو انصاف دو اور آصف زرداری بھی یہ فرماچکے ہیں کہ پیٹھ میں چھرا گھوپنے والوں کا ساتھ نہیں دیں گے ان کا اشارہ میاں صاحب ہی طرف ہے ۔ اس پر کتنا عمل ہوگا۔ یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا۔ فی الحال اور بظاہر اب تک تو تیروں اور بلے کا رخ صرف اور صرف نواز شریف مخالفت میں ہمجولیوں کا کردار ادا کرتے ہیں دکھائی دیتے ہیں۔
زرداری صاحب کی عملی سیاست کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے ورنہ اُس سے پہلے کا علم رکھنے والے یہ علم رکھتے ہیں کہ موصوف اپنے اپنے بچوں کے پیار میں اتنا ڈوبے ہوئے تھے کہ کسی اور سمت دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ زرداری صاحب کا سیاست میں عملی طور پر قدم رکھنا اور پارٹی کو اپنے کنٹرول میں کرلینا معمولی بات نہیں۔ یقینا بہت کچھ اور بڑی محنت کر نا پڑی ہوگی۔ جس کا ثمر آج بھی ان کو حاصل ہے ۔
عشق اور نفرت میں سب کچھ جائز کا نعرہ بہت پرانا ہے ایک جیسے مفادات اور فائدے کے حصول کیلئے بھی مخالفین اور دشمن اپنے مقابل کے سامنے اکھٹے ہو کر ہر سمت سے حملہ آور ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹ سکیں۔
جناب زرداری برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران انگلی کے اشارے پر چلتے ہیں اور پارلیمنٹ کو گالی دینے والوں کا سخت محاسبہ کریں گے کیونکہ پارلیمنٹ نہایت معتبر جگہ ہے ۔ جناب زرداری صاحب کی یہ سلجھی ہوئی اور پارلیمنٹ نواز گفتگو پر کون جمہوریت پسند قربان ہونے کا کیوں نہ سوچے گا۔ لیکن جناب زرداری صاحب اتنا بتادیں کہ ان کے اس بیانیے یا خوبصورت گفتگو پر عمل کتنا ہوا؟ کیا واقعی عوام بے وقوف ہیں ؟؟ یا شعور سے عاری ہے ۔
ملکی سیاسی صورتحال جو بھی ہے اس سے کون آگاہ نہیں۔ سیاستدانوں کی سوچ اور اندازے سب اپنے اپنے حساب کے مطابق‘ چند نے تو ابھی سے اپنے سیاسی انتخابی سفر کا آغاز کردیاہے کچھ ابھی تک سوچ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور عمران خان کی سیاسی حکمت عملی یا چالیں بھی ان کی اپنی سوچ اور حاصل تجربہ کے مطابق ہی ہوں گی۔ کیا دونوں کی سیاسی حکمت عملی اور منصوبے یکسائی کا روپ ہوں گے یا مختلف‘ کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ PP کو پنجاب میں سیاسی زیرو ہونے پر انتہائی تکلیف اور شرمندگی کا جوسامنا ہے اس کا اظہار وہ صرف اور صرف تنہائی میں دو آنسو بہا کر کرلیتے ہوں گے یہ ایک اندازہ ہی ہے
مسلم لیگی حلقوں کے مطابق وطن کے 22 کروڑ عوام کے نزدیک نیب اور عدلیہ کی جانب سے جیسا عملی مظاہرہ ہورہا ہے اس کے مطابق پاکستانی چمکدار اور باوقار سیاست میں صرف ایک گندہ انڈااور کھوٹا سکہ ہی مل سکا اور اس کا نام نواز شریف ہے۔ اگر یہ غلط اور جھوٹ ہے تو پھر صرف ایک دیوار پر ایک درخت پر ہی پتھر مارنا اور مارتے رہنا۔ کیا بیان کرتا ہے کیا ظاہر کرتا ہے ۔