مہنگائی اور عام آدمی

رمضان کریم کے دوران مہنگائی ہر سال کا معاملہ ہے اور اسکی کئی وجوہات ہیں۔ مذہبی بھی کہ اشیائے خورونوش فروخت کرنیوالے اور روزے رکھنے والے ایک ہی مذہبی تعلق سے جڑتے ہوئے ہیں مگر ایک دوسرے کو ہدف بناتے ہیں۔ سماجی اس طرح سے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آہستہ آہستہ روپیہ پیسہ ہی سماج میں عزت کا ضامن ٹھہرا اور اب ہر کسی کو اسے حاصل کرنے کی آرزو ہے، انتظامی اس حوالے سے کہ قیمتوں میں اضافے کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ اگرچہ رمضان کریم میں کچھ انتظامی افراد کو پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی بنا دیا جاتا ہے مگر یہ ساری بھی ایک طرح سے ’’انتظامی‘‘ کارروائی ہی ہوتی ہے اور ریڑھیوں اور چھکڑوں والے ہی قابو آتے ہیں۔ منڈی سے مارکیٹ اور پھر صارف تک پہنچتے پہنچتے مڈل مینوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انکے ’خالص منافع‘ کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ سیاسی بھی وجوہات ہیں کہ سیاستدانوں نے سب کو خوش رکھنا ہے لہٰذا وہ حکومت میں ہوں تو ماسوائے عوام الناس کے سب کو ریلیف دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اگر اپوزیشن میں ہوں تو مہنگائی اپنی تمامتروجوہات کے باعث ان کے لیے زبردست بیان بازی کا ذریعہ ہے۔ یہی کچھ دیکھتے دیکھتے اتنے سال گزر گئے ہیں اور اگر یہی کچھ رہا تو باقی سال بھی اسی طرح گزریں گے۔ انشاء اللہ!!اب تو مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ ایک اچھا لطیفہ سامنے آیا ہے کہ اگر کوئی چیز 20سے 24کی ہو جائے تو مہنگائی ہے اور وہ اگر 20سے 54کی ہو جائے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔حکومت نے اتنا تو کر لیا ہے کہ سبسٹڈیز ختم کر دی ہیں۔ ٹیکس ریکوری کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا حوالہ بھی دیا جاتا رہا ہے مگر انتظامی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی فارمولا وضع نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے وہ لوگ جو اس مقدس مہینہ کی آڑ میں دیہاڑیاں لگانے والے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والانہیں اور آخر میں سب کچھ سابقہ حکومتوں کی عیاشیوں کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی جائیگی۔ مگر اب جان چھوٹتی نظر نہیں آتی کہ عام آدمی تو کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو اپنے ذاتی ریلیف کے حوالے سے پرکھتا ہے جو کہ فی الوقت دستیاب نہیں۔
اس کیلئے ایک باقاعدہ فارمولا وضع کرنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ جس حساب سے کما رہے ہیں اسی حساب سے ان سے ٹیکس ریکوری کی شدید ضرورت ہے اور سارا بوجھ عام آدمی پر ڈال کر ’’خواص‘‘ کو عفوودرگزر کا حقدار قرار دینا کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ ٹیکس ریکوری سے چلیں ایک کھاتا تو پورا ہوا۔ ویسے تو منڈی سے مارکیٹ اور پھر صارف تک رسائی کا ایک ایسا نظام وضع ہونا چاہیے جس سے کسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔اور جو شخص بھی جس جگہ سے خرید وفروخت کر رہا ہے وہیں پہ اس کو حکومتی اقدامات (اگر کوئی ہیں) کا ثمر لے مگر نہ معلوم کب ایسا ہوگا دنیا میں چند ہی خطے رہ گئے ہیں جہاں پر ایسا نظام نظر نہیں آ رہا۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میںایسا ہی نظام ہے کہ جس کو باقاعدہ نظام کہا جاتا ہے۔ عام آدمی کی تعریف بھی یہی ہے کہ جو شخص بھی انتظامی طور پر محرومی کا شکار ہے وہ عام آدمی ہی ہے اس میں ایک عام مزدور سے لیکر ایک دیانتدار آفیسر بھی شامل ہے کیونکہ دونوں فی الحال انتظامی طور پر محروم ہیں اور رمضان کریم کی برکات سمیٹنے والوں کی چیرہ دستیوں کا شکارہیں۔ ان میں بھی بعض تو اپنی شکرانہ صفتی کے باعث کچھ مطمئن ہیں مگر 20روپے کا تربوز54روپے میں لینے والے کو تکلیف تو ہو گی اور یہ تکلیف جائز بھی ہے۔ یہی حال باقی فروٹ اور سبزیوں کا ہے۔ آپ سرکاری نرخنامے کو سامنے رکھ لیں اور مارکیٹ میں داخل ہو جائیں بالکل متضاد صورتحال سامنے آئیگی۔ صارف بے چارا سرکاری نرخنامے کی دھجیاں اڑتی دیکھ کر پریشان ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنی کم آمدنی پر پریشان تھا۔ تیسری پریشانی اسے یہ ہے کہ وہ ہر سرکاری اہلکار کی ترجیح پر ہے کہ تمام اقدامات اس کیلئے اٹھائے جا رہے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر وہ ترجیح پر ہے تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو بغیر ترجیح کے جی رہے ہیں اور بہت سے لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ مگر وہ اپنے اس معاملے کو اپنے اور خدا کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اس رویے سے انکے خدا کا دل تو ضرور نرم ہوگامگر مارکیٹ والوں کا نہ ہوگا کیونکہ ان کو تو برکات نقد سمیٹنی ہیں اور وہ اس میں اتنے مصروف ہیں کہ سحروافطار کا وقت نہیں ملتا۔اب عید پر بچوں نے والدین سے نئے کپڑے اور جوتے بھی مانگنے ہیں اور والدین نے اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر مارکیٹوں سے واپس بھی آنا ہے اور کئی والدین نے خودکشیاں بھی کرنی ہیں جبکہ کہتے ہیں کہ کفار کرسمس کے نزدیک اشیائے ضرورت ممکن حد تک سستی کر دیتے ہیں اور کرسمس پر فاضل اشیاء محض قیمت خرید پر فروخت کر دیتے ہیں اور خودکشیوں سے بچے رہتے ہیں۔ واللہ عالم بالصواب۔ہماری تو بڑے عرصے سے خواہش ہے کہ وہ سورج کہ جس کی روشنی کچے گھروندوں کو منور کرتی ہے جلد از جلد نکلے اور اپنے دن بدلیں۔ یہاں کے بچے عید کے روز ماں باپ سے گلے ملیں تو خوبصورت کپڑوں اور جوتوں میں ہوں۔ انکے چہروں پر وہ مسکراہٹ ہو جو دلوں کو منور کرتی ہے اور والدین کے چہروں پر بھی مارکیٹی مسکراہٹ نہ ہو بلکہ ویسی ہی مسکراہٹ ہو مگر اس کیلئے ہمیں پارٹیوں اور لٹیروں کے سحر سے آزاد ہونا ہوگا۔ اور اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے سوچنا ہوگا ۔دل سے اور دماغ سے وہی فیصلے کرنے ہوں گے جو اس ملک کیلئے اس ملک میں رہنے والے عام لوگوں کے مفاد میں ہوں۔

ای پیپر دی نیشن