انسانی زندگی کے سدھار اور بگاڑ میں تعلیم اور تعلیمی پس منظر کا بڑا دخل ہے ، تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے اور زیور تہذیب و تمدن سے آراستہ کرتی ہے۔ جو قومیں تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہیں وہ اقوام عالم میں اپنا مقام نہیں بنا سکتیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلم اور عرب علما نے سائنس اور طب کے میدانوں میں وہ کارہاے نمایاں انجام دئیے جسے آ ج بھی مغربی دنیا اپنی کوششوں کے باوجود فراموش نہیں کرسکی۔ ابن سینا کی طبی تصنیف ‘‘قانون ’’ جسے انگریزی میں کینن لکھا جاتا ہے،آج بھی میڈیکل لائبریریوں کی ریفرنس سیکشن میں شامل ہوتی ہے اسی طرح بیسیوں مثالیں ہیں کہ ہمارے اجداد نے علم وحکمت سے سرخروئی پائی اور ہماری نسل تن آسانی کا شکار واٹس اپ اور دیگر ذرائع ابلاغ کوعلم کے حصول کا ذریعے سمجھنے لگی گوگل کو بطور حوالہ بیان کیا جانے لگا۔ کتابوں سے دوری نے نسل کو زیور تعلیم سے دور اور نظریاتی طور پر برہنہ کردیا۔ اب جس کو جو جی چاہے ہم سے باور کروائے۔ دہشت گردی اور امت میں انتشار بھی تعلیم کے فقدان کا نتیجہ ہے جب ہمارے جوان فکری سرمایہ سے خالی ہوں گے تو گمراہ کن افکار کی یلغار نئی نسل کے ذہنوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو رہا ہے چشم عالم سے پوشیدہ نہیں۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ملک وقوم اورمعاشرے کی ترقی و خوشحالی اور جدید دور کے تقاضوں نبرد آزما ہونے گلوبلازیشن میں اپنا مقام بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی پر دسترس دور حاضر کا اولین تقاضہ ہے ،اس لئے متعلقہ اداروں کی اہمیت مسلمہ ہے اور اداروں کا اہل اور قابل افراد کے ہاتھوں میں ہونا ناگزیر ہے۔ہمارے ہاں میرٹ اور قانون کو عموماً موم کی ناک بنا لیاجاتا ہے۔ سفارشوں پر تعیناتیاں ہوتی ہیں اگر تعلیم کے میدان میں ایسا ہو تو قومیں اس کی صدیوں سزا بھگتتی ہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر معاملات دیدہ ور اور legend لوگوں کے ہاتھ میں آجائیں تو وہ صدیوں کی کوتاہیوں کا مداوا بھی کر دیتے ہیں۔ایسی اہی ایک شخصیت ڈاکٹر نیاز اختر کو گزشتہ حکومت نے جامعہ پنجاب کا وائس چانسلر تعینات کیا۔ عموماً یہ ہوتا ہے نئی آنے والی حکومت بڑے عہدوں پر پر اپنے پیشروحکو مت کی تعیناتیوں پر نظرثانی کرتی ہے مگر ڈاکٹر نیاز اختر کے معاملے میں اس کے برعکس ہوا نئی حکومت نے ان کی صلاحیتوں، ڈیڈیکیشن او ڈیووشن کو دیکھتے ہوئے ان پر مزید اعتماد کا اظہار کیااور مزید ذمہ داریاں سونپ دیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کو 6 ماہ کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے کا اضافی چارج دیدیا گیا۔ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ ضلع سے تعلق رکھنے والے اس نابغہ روز گار نے ملک کی بہترین جامعہ کو مختصر مدت میں میرٹ اصولوں اور قواعد ضوابط کی کرفرمائی کی عمدہ مثال بنا دیا ہے۔اساتذہ سیاست میں ملوث ہیں نہ طلبا وطالبات سیاسی سرگریوں کی آڑ میں حصول علم سے دور ہیں۔ڈاکٹر نیاز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور قوم کے نونہالوں کو بھی ایسی ہی صفات سے متصف کرنے کے خواہشمند اور کوشاں ہیں۔قحط الرجال کے اس دور میں ایسے انسانوں کو وجود غنیمت ہے۔پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے 1986 میں کیمیکل انجینئرنگ اور 1995 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی تھی۔پروفیسر ڈاکٹر نیاز اس سے قبل پانچ سال سرگودھا یونیورسٹی، چار سال یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا (یو اے ٹی) کے وائس چانسلر رہے وہ نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے ریکٹر رہ چکے ہیں۔ اپنا زیادہ وقت درس و تدریس میں بہتری کی منصوبہ بندی میں صرف کرتے اور طلباو معاشرے کے ہر طبقہ پر زور دیتے ہیں کہ علم حاصل کرو گود سے گور تک۔وہ بامقصد تعلیم کو ملی،ملکی اور قومی ترقی وخوشحالی کا زینہ و ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ایک تقریب میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر نیاز احمد اختر نے تعلیمی اور حکومتی اداروں پر زور دیا کہ وہ معیار تعلیم پر ہر گزسمجھوتہ نہ کریں کیونکہ ترقی کا واحد راستہ یہی ہے۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور طلبہ بین الاقوامی شہریت کے حامل ہوتے ہیں لہذا ہمیں بین الاقوامی معیار کے طلباوطالبات پید ا کرنے ہوں گے۔ نئے دور کی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ تعلیم کے لیے بھی نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان نے ان کی تعلیمی میدان میں صلاحیتوں کا اعترف کرتے ہوے انہیں نشان پاکستان کے اعزاز سے نوازا ۔پنجاب یونیورسٹی میں ان کی کامیابی پیچھے Right man on the right job کا فارمولہ کار فرما ہے۔وہ خود بھی اس اصول کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔وہ میرٹ پر تعینات ہوئے ہیں ، کسی مصلحت کا شکارہوتے ہیں نہ دباؤمیں آتے ہیں،میرٹ اور اصول کے تحت ہرکام اور فیصلے کرتے ہیں۔آج کا کام آج ہی نمٹانے کے اصول و ضابطے پر کاربند ہیں۔ان سے ایک خصوصی درخواست کرنی ہے۔کچھ سال قبل جامعہ میں جگہ جگہ علامہ اقبال کے فرمودات کے سائن بورڈ لگے تھے،وہ کسی وی سی نے شاید رنگ وروغن کیلئے اتروائے ہوں مگر دوبارہ نصب نہیں ہوئے،اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔وہ نئے سرے سے لگا دئیے جائیں اب تو سیاسی بنیاد پر علامہ سے بغض رکھنے والے لوگ بھی اقتدار سے فارغ ہوچکے،جنہوں اقبال ڈے پر چھٹی ختم کردی تھی،لہٰذا اس کار خیر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوسکتی۔
قحط الرجال میں ایسا انسان
Jun 04, 2019