عربوں کے قصے حیرت ناک بھی ہیں اور سبق آموز بھی ایک وقت تھا یہ ایک بکھری ہوئی قوم تھی جسے ہجوم کہنا شاید دُرست ہو یہ آپس میں دست و گریباں رہتے۔ کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، کہیں مویشی چرانے پہ جھگڑا دور جاہلیت، جہاں مفلسی بھنگڑا ڈالتی تھی۔ خدائے لم یزل کو انکی حالت زار پر رحم آ گیا اور ان کے درمیان ایک ایسے انسان کامل کو بھیج دیا جس نے اپنی حیات مستعار میں ہی ایک بکھری ہوئی قوم کی وحدت کی لڑی میں پرو دیا۔ ایک ایسی شاندار سلطنت کی بنیاد رکھی جس کی سرحدیں دیکھتے ہی دیکھتے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ کُفر کے اندھیرے چھٹ گئے۔ قیصر و کسریٰ کا غرور پیوند خاک ہو گیا۔ اُس عظیم انسان نے لوگوںکو زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا مرنے کے آداب بتائے اور ایک ایسی کتاب دی جسے دنیا کی نمایاں آبادی فہم و ادراک، سائنس اور روحانیت کا منبع سمجھتی ہے ۔ ایک ایسی کتاب جسے پڑھیں تو حرف لَو دینے لگتے ہیں۔ جس کا ہر حرف ایک زریں باب ہے اُور ہر باب ایک روشن کتاب۔ عکاظ کے سالانہ پہلے میں عرب شعرا نے بیک زُبان ویسے تو نہیں کہار تھا۔ بلاشُبہ یہ کلام بشر نہیں ہے۔
رسالت مآبؐ کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین نے انکے مشن کو مزید آ گے بڑھایا۔ ایک وسیع و عریض سلطنت میں انصاف اور عدل کا نظام قائم کیا۔ بیت المال کو عوام کی امانت سمجھا۔ ان تمام ترخوبیوں کے باوصف آخری تین خلفا شہید ہوئے۔ حضرت عُمرؒؓ ابو لولو فیروز کی تلوار کا نشانہ بنے۔ کچھ منافقین نے مصلحتاً اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اُن کے دلوں سے بغض و عناد نہ گیا حضرت عُمرؓ کا دورہ فلسطین خاصی دلچسپی کا حامل ہے۔ عیسائیوں نے شرط رکھی کہ اگر خلفیہ خود آئے تو وہ سب شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کو معروضی حالات کے تحت خلیفہ تزک و احتشام کے ساتھ روانہ ہوتے۔ لیکن شان استغنا دیکھیں کہ ایک غلام کی معیت میں روانہ ہوئے۔ بیت المال سے دوسرا اونٹ بھی نہ لیا۔ اسے اسراف سمجھا۔ جب یروشلم میں داخل ہوئے تو لوگ حیران رہ گئے۔ ہیڈ پادری سفرئینس نے عرب سپہ سالار سے پوچھا کہ خلیفہ کون ہے؟ جواب ملا کہ بوسیدہ لباس والا شخص جس نے اونٹ کی مہار پکڑ رکھی ہے اور وہ جو اونٹ پر سوار ہے؟ وہ غلام ہے۔ پادری نے لاطینی زبان میں اپنے نائب کو کہا۔ پیغمبر (دانیالؑ)ڈینیل درست فرما گئے تھے۔ ایک ایسے ہی حلیے والا دریدہ لباس شخص حاکم بن کر شہر میں داخل ہو گا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے لیے کسی قسم کی سیکیورٹی نہیں رکھی تھی۔ بلوائیوں نے انہیں بلاجواز شہیدکر دیا۔ حضرت علیؓ کا دور خاصا ہنگامہ خیز تھا۔ جنگ جمل، جنگ صفین، جنگِ نہروان، بالآخر وہ بھی کوفہ کی مسجد میں ایک خارجی ابن مُلجم کیزہر میں بجھی ہوئی تلوار کا نشانہ ہے۔ دم واپسیں جب شربت کا گلاس لایا گیا تو وہ انہوں نے اپنے قاتل کو یہ کہ کر دے دیا۔ میری نسبت تو زیادہ گھبرایا ہوا ہے!
حضرت امیر معاویہؓ کے بعد خاندان بنو امیہ میں تین قابل ذکر حکمران گزرے عبدالملک جس نے صحیح معنوں میں سلطنت کو مضبوط کیا۔ اسے حجاج بن یوسف کی شکل میں ایسا گورنر ملا جو ظاہم، جفاجو کینہ پرور تو ضرور تھا لیکن ایک اعلیٰ پائے کا منتظم بھی تھا۔ اُس وقت کے معروضی حالات کا آج سے تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ مملکت کے استحکام میں اُس کا نمایاں ہاتھ تھا۔ محمد بن قاسم فاتح سندھ اس کا داماد تھا۔ عبدالملک جب کوفہ آیا تو عبداللہ ابن زبیرؓ کا سر اسے پیش کیا گیا۔ حاضرین میں سے کسی شخص نے آہ کھینچی۔ ’’بدبخت تو میرے دشمن کی موت پر خُوش نہیں ہوا!‘‘ عبدالملک نے غُصے بھری نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا ، وہ بولا، عجب مکافاتِ عمل ہے۔ اسی جگہ میں نے حضرت امام حسینؓ کا سر ابن زیاد کے آگے دیکھا۔ پھر ابن زیاد کا سر مُختار ثقفی کے سامنے دیکھا۔ پھر مختار ثقفی کا سر ابن زبیر کے سامنے دیکھا۔ آج ابن زبیر کا سر تمہارے تخت تلے دیکھ رہا ہوں۔ یہ سن کر عبدالملک پر کپکپی طاری ہوئی۔ اس نے محل کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ عبدالملک اہل کوفہ سے سخت نالاں تھا۔ یہ بڑے متلون مزاج لوگ تھے۔ کبھی تو کسی شخص کے لیے آگ کی طرح تپ جاتے اور پھر دوسرے لمحے برف کی طرح سرد اور مُردوں کی طرح بے حِس ہو جاتے۔ انہیں پتہ ہی نہ چلتا کہ ان کی سوچ کے قافلے کن راہوں پر گامزن ہیں۔ ان کی سرکوبی کے لیے عبدالمالک کو حجاج سے زیادہ موزوں کوئی شخص نظر نہ آیا۔ جب اہل کوفہ کو پتہ چلا کہ نیا گورنر آ رہا ہے تو وہ شرارتاً مسجد کوفہ میں کنکر جیبوں میں بھر کر لے گئے۔ حجاج نے نقاب اوڑھ رکھا تھا۔ جب اس نے ایک فیصلہ کن جھٹکے سے نقاب اُٹھایا تو اُس کا غضب ناک چہرہ دیکھ کر لوگوںپر کپکپی طاری ہو گئی۔ تقریر سے پہلے حجاج نے چند شعر پڑھے۔
’’ اے کوفہ کے عیار لوگو۔ میری طرف غور سے دیکھو۔ میں وہ شخص ہوں جو طوفانوں کے رُخ موڑ دیتا ہے۔ سمندروں کی بے رحم موجوں کو لگام ڈالتا ہے۔ آج مجھے تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کے درمیان خون نظر آ رہا ہے۔ تمہارے سروں کی فصل پک چکی ہے اور خلیفہ نے مجھے وہ فصل کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ میں تمہیں اس طرح ماروں گا جس طرح مست اونٹ کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ جہنم میں جانے سے پہلے ہی میں تمہیں نارِالتہاب کا مزہ چکھائوں گا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ کل سورج طلوع ہونے سے قبل تمام مرد جہاد کے لئے سرحد پر پہنچ جائیں۔ صبح سارا کوفہ خالی ہو گیا۔
عمر بن عبدالعزیز کو بجا طور پر پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے۔ ملوکیت کے اُس ماحول میں ایک فرشتہ صفت انسان کا پیدا ہونا معجزے سے کم نہیں تھا۔ اُنکی ساری زندگی راست گوئی اور راست روی سے عبارت تھی۔ جو شخص رات کو امور سلطنت نمٹانے کے بعد چراغ اس لئے گُل کر دے کہ اس میں بیت المال کاتیل پڑا ہوا ہے۔ اسکے بلند کردارکے متعلق اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان کے فرد یہ کہتے ہوئے سُنے گئے کہ بنو اُمیہ کے زوال کے لئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ خیر سے گھر میں ہی ایک سپوت پیدا ہو گیا ہے۔ اس طنزو تشنیع کا اس مردِ حق پر کیا اثر ہونا تھا۔ اُنہوں نے حیات مستعار خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم پر چل کر گزاری۔ ہشام بھی ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ سلطنت کے استحکام میںاس کا نمایاں حصہ تھا۔ اُمیہ دور میں خلافت کے خدوخال مدہم پڑنے لگے اور ملوکیت حکمرانوں کا مطمح نظر ٹھہری۔ سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دیگر حکمرانوں میں وہی خامیاں (یا خوبیاں) تھیں جو ایک کامیاب بادشاہ میں ہوتی ہیں۔ اسپین سے لیکر ہندوستان تک پھیلی ہوئی مملکت کو کامیابی سے چلانا ہر بادشاہ کے بس کا روگ نہ تھا گو اسلام نے مسلمانوں کو سیاسی وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا لیکن صوبائی عصبیت ذات برادری اور نسلی برتری کے عفریتوں نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ عیش و عشرت اور لہو لب میں ڈوبے ہوئے حکمرانوں کے لئے حکومت چلانا مشکل ہو گیا ۔
خاندان بنو اُمیہ کا زوال بھی کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ انکے عم زادوں کے ہاتھوں ہوا۔ فلسطین کے دوردراز قصبے حُمیعہ میں پکتی ہوئی سازش بالآخر کامیاب ہوئی اور آخری اموی حکمران مروان دوم کو دریائے زب کے کنارے عباسی جرنیل عبداللہ ابن علی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ابوالعباس پہلا خلیفہ بنا ۔کوفہ کی مسجد میں اُس نے خطبہ پڑھا اور حاضرین کی کثیر تعداد نے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 35 عباسی خلفا نے پانچ سو سال تک حکومت کی۔ اُن میں کچھ فعال تھے اُور اکثر غیر فعال (Rule And Reign) میںجو بُنیادی فرق ہے اس کو سمجھنے کے لئے عرب تاریخ کامطالعہ ضروری ہے۔ 820ھ میں عباسی خلیفہ دنیا کا طاقتور ترین حکمران تھا۔ 920 میں خلیفہ کا اختیار اتنا ہی تھا جتنا مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا دلی میں تھا۔ شاہِ عالم دلی تا پالم۔ 1258 میں ہلاکو خان نے دارلخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عباسیوں میں تین بادشاہ مشہور رہوئے۔ ابوجعفر منصور، ہارون رشید، مامون رشید۔ چونکہ پہلا خلیفہ ابوالعباس پنتیس سال کی عمر میں چیچک سے مر گیا تھا اس لئے سلطنت کا استحکام اُس کے بھائی ابوحعفر منصور نے یقینی بنایا۔
’’جرنیل عبداللہ ابن علی ، ابو مُسلم خراسانی اور امام نفس ذکیہ (جن کے ہاتھ پر عباسیوں نے بیعت کی تھی) خاندان نبو اُمیہ کی شکست کا باعث بنے۔ ابوجعفر منصور نے تینوں کو یکے بعد دیگرے مروا دیا۔ یہ تاریخ کا سبق ہی نہیں جبر بھی ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر بھی اس کا طلاق ہوتا ہے۔ ہر آنے والا لانے والے کو چلتا کرتا ہے۔ عبداللہ ابن علی، ابوالعباس اور اُس کے بھائی ابوجعفر منصور کا چچا تھا۔ اُس کو اس بات کا قلق تھا کہ جنگ تو اُس نے جیتی لیکن وراثت چچا کی بجائے بھائی کو مل گئی۔ یہ بڑا عیار اور سفاک شخص تھا۔ مروان ثانی کی شکست کے بعد خاندان بنو امیہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس نے اموی شاہزادوں کو تسلی دی اور عام معافی کا اعلان کر دیا۔ خوش آئند تعلقات کے پیش نظر اس نے 80 شہزادوںکو کھانے پر بلایا۔ کھانے کے دوران ’’حق مہمان نوازی‘‘ کا مظاہرہ ضروری ہو گیا۔ اس کے چُھپے ہوئے آدمیوں نے سب مہمانوں کو قتل کردیا۔ مُردوں اور اَدھ مرے ہوئے لوگوں پرچمڑے کا دسترخوان بچھایا گیا۔ امویوں کی ہچکیوں اُور آہوں کے درمیان اس سفاک شخص اور اُس کے حواریوں نے کھانا کھایا۔ سازشی شخص ایک نہ ایک دن خود بھی اپنے بچھائے ہوئے جال میں آ پھنستا ہے۔ اس کی بغاوت کو کچلنے کے لیے ابو جعفر منصور نے ابو مسلم خراسانی کو بھیجا۔ اس نے عبداللہ بن علی کو شکست فاش دی۔ مورخ لکھتے ہیں کہ ابو مسلم نہایت طاقتور جرنیل تھا۔ وہ اپنی چھوٹی انگلی اُٹھا کر عباسی خاندان کو اس طرح ملیامیٹ کر سکتا تھا جس طرح وہ انہیں اقتدار میں لایا تھا۔ واپسی پرمنصور نے دارالخلافہ سے باہر نکل کر اس کا استقبال کیا۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے ۔ بیش قیمت انعامات سے نوازا اور اسی رات مہمان خانے میں اپنے آدمی بھیج کر ابو مسلم کو مروا دیا۔ سکون کا سانس لیتے ہوئے بولا۔ اس کے ہوتے ہوئے میں ہر طرح سے غیر محفوظ تھا۔ چچا جان کے لیے اس نے شہر کے باہر محل تعمیر کروایا ، محل کی بنیادوں میں نمک بھر دیا گیا۔ پہلی برسات میں محل زمین بوس ہو گیا اور چچا جان زندہ درگور! نفس ذکیہ کو منصور نے امان دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے لکھا کونسی امان؟ وہ جو تم نے اپنے چچا کو دی ہے یا وہ جس کا سزا وار ابو مسلم خراسانی ٹھہرا ہے۔ بالآخر لڑتے ہوئے وہ بھی مارے گئے۔ (جاری)