ایف ایچ شہزاد
لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف کی عبوری ضمانت 17جون تک منظور کرتے ہوئے نیب سے جواب طلب کرلیا۔ عدالت عالیہ نے آئندہ احکامات تک نیب کو میاں شہبازشریف کی گرفتاری سے روک دیا۔ نیب کی طرف سے میاں شہبازشریف کی رہائش گاہ پر گرفتاری کیلئے چھاپے اور دیگر کارروائیوں کے تناظر میں مسلم لیگ ن عدالت کی طرف سے ضمانت منظور ہونے کو بڑا ریلیف قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف نیب نے عدالت کی طرف سے ضمانت منظور کئے جانے کے بعد میاں شہبازشریف کو 9جون کیلئے طلبی کا ایک اور نوٹس جاری کر دیا ہے۔ نیب اس پیشی پر عدالتی حکم کے پیش نظر میاں شہبازشریف کو گرفتار تو نہیں کرسکے گی البتہ نیب کی تفتیشی ٹیم ایسے شواہد اور ریکارڈ جمع کرنے کی کوشش ضرور کرے گی جو لاہور ہائیکورٹ کے روبرو پیش کرکے یہ ثابت کیا جائے کہ آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ انکوائری میں نہ صرف میاں شہبازشریف نے نیب کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب نہیں دیئے بلکہ نیب سے عدم تعاون بھی کیا۔ نیب پراسیکیوٹرز کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ فاضل عدالت کو باور کروایا جائے کہ نیب کی طرف سے پانچ بار کی طلبی میں میاں شہبازشریف صرف ایک بار پیش ہوئے۔عدم تعاون کا ان کا رویہ انکوائری کیلئے منفی ثابت ہوسکتا ہے اور وہ اپنے خلاف موجود بعض ٹھوس شواہد کو ضائع کرسکتے ہیں،ا س لئے ان کی گرفتاری ناگزیر ہے۔ نیب پراسیکیوشن ذرائع کا کہناہے کہ آج تک جتنے الزامات میں بھی میاں شہبازشریف کے خلاف انکوائریاں کی گئیں، مذکورہ الزامات میں نیب کے پاس میاں شہبازشریف کے خلاف سب سے زیادہ ٹھوس شواہد ہیں جس کی بناء پر وہ ایک مضبوط ریفرنس داخل کریں گے۔ نیب کی طرف سے منگل اور بدھ کو بھرپور کوشش کی گئی کہ میاں شہبازشریف کو گرفتار کیا جائے۔ ا س کیلئے میاں شہبازشریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹائون، جاتی امرا اور کئی لیگی رہنمائوں کے گھروںمیں چھاپے مارے گئے جبکہ میاں شہبازشریف کی ہائیکورٹ میںپیشی کے موقع پر بھی عدالت آنے والے راستوںپر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار تعینات کئے گئے۔ بعدازاں میاں شہبازشریف کے وکلاء کی نشاندہی پر فاضل عدالت نے میاں شہبازشریف کے راستے روکنے سے منع کیا اور حکم دیا کہ درخواست گزار کو عدالت تک پہنچنے دیا جائے۔ ابتدائی سماعت کے موقع پر درخواست گزار سمیت مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔ میاں شہبازشریف کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 1972ء میں بطور تاجر شریف فیملی میں میاں شہبازشریف نے کاروبار کا آغاز کیا اور زرعی شعبے، شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم کردار ادا کیا۔ درخواست گزار میاں شہبازشریف نے موقف اختیار کیا کہ سماج کی بھلائی کیلئے 1988ء میں سیاست میں قدم رکھا، نیب نے بدنیتی کی بنیادپر ان پرآمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے۔ شہبازشریف کے وکیل نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے نیب نے انکوائری شروع کی ہے جبکہ انکوائری میں گرفتار کئے جانے کا خدشہ ہے لہٰذا عبوری ضمانت منظور کی جائے۔ نیب کی طرف سے کہا گیا کہ انکوائری میں ٹھوس ثبوت سامنے آئے ہیں۔ میاں شہبازشریف سے اس بابت جب بھی پوچھا گیا، وہ اپنے خلاف الزامات کاٹھوس جواب دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے جمع کروائے گئے جوابات میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ فاضل عدالت نے دلائل کے بعد میاں شہبازشریف کی عبوری ضمانت 17جون تک منظور کرلی۔ نیب کو گرفتاری سے روک دیا اور نیب سے جواب طلب کرلیا۔ سماعت کے بعد میاں شہبازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ نے ان کے بحیثیت شہری حقوق کو پامال کیا ہے۔ نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیاجا رہا ہے۔ اب اس انکوائری کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ نیب میاں شہبازشریف کی طرف سے عدم تعاون ثابت کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ درخواست گزار کے وکلاء نیب پر بدنیتی کا الزام ثابت کریں گے۔ اس نوعیت کے مقدمات میں اگر گزشتہ عدالتی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عدالتوں نے نیب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے اختیارات کے استعمال میں بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ نیب جو الزامات لگائے اس کو ثابت بھی کرے۔ ماضی میں میاں نوازشریف، شہبازشریف ، حمزہ شہباز اور مریم نواز کی ضمانتی بھی منظور ہوچکی ہیں جبکہ فاضل عدالت نے میاں نوازشریف کو سزایافتہ ہونے کے باوجود طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ قانونی ماہرین بھی نیب کے پراسیکیوشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ نیب کے پاس تجربہ کار پراسیکیوشن ٹیم نہیں، انکوائری کرتے ہوئے بہت سارے قانونی امور کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے عبوری ضمانت دینے کے بعد اب نیب کو زیادہ پروفیشنل طریقے سے ثبوت عدالت کے سامنے رکھنے ہوں گے ورنہ فاضل عدالت ضمانت کنفرم بھی کرسکتی ہے۔ قانونی طور پر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ نیب ملزمان کو تین ماہ سے زائد عرصہ حراست میں رکھنے کے بعد بھی ٹھوس شہادتیں اور ثبوت اکٹھے نہیں کرسکی جس کی وجہ سے ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف مل گیا۔ اس کے علاوہ نیب کی طرف سے ریفرنس داخل کرنے میں بھی تاخیر رہی جس کی نشاندہی ملزمان اور عدالتوں نے کی۔ آئندہ تاریخ سماعت فیصلہ کن ہوسکتی ہے کیونکہ 17جون سے پہلے 9جون کو میاں شہبازشریف کو نیب نے طلب کیا ہے۔ اس تاریخ پر ہونے والی کارروائی کو فریقین اپنے حق میں کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ عدالت کے سامنے ثبوت پیش کئے جاسکیں۔ نیب کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ناجائز اثاثوں اور منی لانڈرنگ انکوائری میں ناقابل تردید ثبوت حاصل کئے جاچکے ہیں۔ ایسے لوگ بھی گرفتار ہیں جنہوں نے شریف فیملی کے اکائونٹ میں رقوم جمع کروائیں، ان میں شہبازشریف بھی شامل ہیں۔ چند ملزمان وعدہ معاف گواہ بھی بن چکے ہیں جنہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔ اب دارومدار اس بات پر ہے کہ شہبازشریف کی طرف سے دائرہ کردہ درخواست ضمانت پر عدالتی فیصلہ کیا آتا ہے اور دوسرا مذکورہ الزامات کی بنیاد پر نیب کس قدر ٹھوس ریفرنس تیار کرتی ہے۔