آن لائن اور ٹیلی تعلیم

کرونا کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ اتھل پتھل اور غیریقینی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے۔ جہاں جہاں کرونا نے وار کیا‘ وہاں کے ممالک کی معیشت تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ میرا چھوٹا بھائی جو نیویارک میں سیٹل ہے اور ہر وقت امریکہ کی بہترین تعلیم اور صحت کے نظام کی خوبیاں بتاتا رہتا تھا۔ آج وہ وطن عزیز کے ڈاکٹرز اور پولیس والوں کی تعریف کر رہا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ امریکہ میں ہزاروں ڈاکٹروں اور پولیس والوں نے اپنی ڈیوٹی سے چھٹیاں لے لی ہیں اور اپنے ادارے کو محض اطلاع دی ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لہٰذا وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے ڈاکٹر اور طبی عملہ اپنی جان کو دائو پر لگا کر کرونا مریضوں کے وارڈز میں ڈیوٹیاں انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح انتظامیہ اور پولیس کے لوگ بھی بلاجھجک اور خوف کے اپنے سرکاری فرائض ادا کررہے ہیں‘ تاہم کاغذی شیر یعنی ٹائیگر فورس کٹس نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ اللہ کے کرم سے ہمارے ملک کے لوگوں میں Herd Immunity کے طورپر ہی کرونا وائرس کمزور ہوگا اور جن لوگوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوگی‘ وہ آسانی سے کرونا سے لڑیں گے وگرنہ جتنی زیادہ احتیاط کریں گے اتنا زیادہ ہمارا مدافعتی نظام وائرل بیماریوں کے حملوں کے مقابلے میں کمزور ہوتا جائے گا۔ پاکستان کی انتظامیہ اور محکمہ صحت نے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے قوم کی زبردست خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہیں ہائر ایجوکیشن کمشن چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبوں کا۔ انہوں نے آن لائن اور ٹیلی سکول شروع کر رکھا ہے۔ مجھے راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بتایا کہ ہمیں انا ٹومی اور سرجری جیسے مضامین کے ریکارڈڈ لیکچرز سنوائے جاتے ہیں۔ ان ریکارڈنگز کو سن کر کوئی طالبعلم کیسے اناٹومی اور سرجری کے متعلق مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان لیکچرز کو Interactive بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ یعنی طالبعلم سوال جواب کر ہی نہیں سکتے ہیں۔
جب تمام انٹرمیڈیٹ تک طلباء و طالبات کو پاس کر دیا گیا ہے تو اب وہ کیوں آن لائن لیکچرز سنیں گے۔ جس نے سننے ہیں وہ یو ٹیوب پر خان اکیڈمی کے لیکچرز جب چاہے سن سکتا ہے۔ ہر سال 80‘ 80 ارب روپے کی امداد لینے والا وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمشن اور اس کے ساتھ منسلک سرکاری اور غیر سرکاری کاروباری یونیورسٹیوں نے تین ماہ گزر جانے کے بعد کوئی ایسا سافٹ ویئر تیار نہیں کیا جس سے طلباء و طالبات کو آن لائن تعلیم ‘ کلاس رومز کے ماحول کے مطابق باہمی سوال اور جواب کے مطابق دی جا سکے۔ میڈیکل کالجز اور انجنیئرنگ یونیورسٹیوں والے پروفیسرز اور وائس چانسلرز کو بھاری تنخواہیں مل رہی ہیں لہٰذا وہ آرام سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ طلباء بین الاقوامی کمپنیوں کو ایپلی کیشنز روم وغیرہ کے ذریعے سمسٹر سسٹم کی پڑھائی کررہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور وائے فائی اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے تکنیکی مسائل کی وجہ سے طالبعلموں کی اکثریت گزشتہ تین ماہ سے یونیورسٹیوں کو فیس ادا کرنے کے باوجود رتی برابر بھی تعلیم حاصل نہیں کر رہی۔ کیا ہائر ایجوکیشن کمشن اور محکمہ تعلیم ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو بڑے بڑے ہالز میں 20 سے 25 طلبہ و طالبات کو مناسب فاصلے پر بٹھا کر براہ راست بھی تعلیم دے سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹرز اور انتظامیہ کے لوگ براہ راست ڈیوٹیاں دے رہے ہیں تو سرکاری میڈیکل کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور دوسرے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کیوں نہیں براہ راست طلباء و طالبات کو پڑھا سکتے ہیں۔ چلیں چھوٹی عمر کے بچوں کو سکولوں میں نہ بھیجا جائے مگر جوان طالبعلم تعلیمی ادارے بند ہونے پر کون سے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے قدرتی طورپر مدافعتی نظام مضبوط ہیں۔ پاکستان کے نظام تعلیم میں استاد اور شاگرد کا براہ راست مکالمہ سیکھنے کے عمل اور شخصیت کی نشوونما کیلئے انتہائی اہم ہے۔ آن لائن نظام اور بغیر سوال و جواب اور گوگل پر بنے بنائے لیکچرز سن کر کوئی بھی طالبعلم مہارت نہیں حاصل کر سکتا۔ سمسٹر سسٹم کے جبر کی وجہ سے طلباء و طالبات کھل کر بات بھی نہیں کرتے ہیں۔ آج میڈیکل کا طالبعلم بغیر انسانی مردہ جسم کے تصورات میں اناٹومی اور سرجری سیکھ رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ابھی تک ہائر ایجوکیشن کمشن یہ پالیسی واضح ہی نہیں کر رہا ہے کہ سمسٹر سسٹم کے امتحانات کب اور کیسے ہونگے یا ان طالبعلموں کو بھی محض خانہ پری کرکے پاس کر دیا جائے گا۔
اگر اساتذہ ٹیوشن گروپس میں پڑھا رہے ہیں اور بازاروں میں خریداری کر رہے ہیںتو کیا دفاتر اور تعلیمی ادارے اپنا کام کرونا کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن