اجتماعی قوت مدافعت کا ظالمانہ فلسفہ

صحت عامہ کے عالمی ماہرین ہرڈ امیونٹی کے مختلف پہلووں پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ہارورڈ ٹی ایچ چن سکول (Harvard T.H. chan School of Public Health) کے وبائی امراض کے ماہر مائیکل مینا کی رائے میںہرڈ امیونٹی کی تحقیق سے واضح ہے کہ یہ طریقہ کارفی الوقت ممکن نہیں۔
اس طریقہ کارکے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے اس لئے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ تاہم وبائی امراض کے ماہرین(epidemiologists) کا ماننا ہے کہ جب 60 سے 80 فیصد آبادی وائرس سے متاثر ہوگی تو پھر اس مرض کے خلاف اجتماعی مدافعت سامنے آئے گی۔یعنی آبادی کا بڑا حصہ پہلے وائرس کا شکار ہوگا پھر پتہ چلے گا کہ قوت مدافعت کا اجتماعی نظام کامیاب ہوا کہ ناکام ہوا۔ اس عمل میں اموات کی صورتحال کیا ہوگی؟ یہ سوچ کر ہی دل کانپ جاتا ہے۔
ڈاکٹر مینا نے برملا اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ایسا کوئی طریقہ کار فی الوقت دستیاب نہیں کہ یہ تجربہ کرلیاجائے اور لوگ بھی نہ مریں۔ ان کے مطابق ایمانداری سے کہاجائے تو فوری طورپر ایسا ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وائرس کو پوری طرح پھیلنے دیاجائے لیکن معاشرے نے یہ طریقہ کار اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خون میں اینٹی باڈی کے تحت پیدا ہونے والے پروٹین یا لحمیات کا مطالعہ کیاگیا۔پانی کے بعد ہمارے جسم میں سب سے زیادہ لحمیات (Protien)پائے جاتے ہیں۔ ہمارا جسم 18 سے 20 فیصد پروٹین سے ہی مل کر بنا ہے۔انسانی جسم میں ایک لاکھ اقسام کی پروٹین پائی جاتی ہیں۔ پروٹین ہمارے جسم کی نشوونما، زخم مندمل کرنے اور جسم میں جاری مختلف قسم کے کیمیائی عمل کو برداشت کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پروٹین یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’سب سے پہلے‘ یا ’اول‘ بتایاجاتا ہے۔ پروٹین کی مثال ایک ٹرین کی طرح ہے جس میں کئی بوگیاں ہوتی ہیں۔ جسم میں پروٹین کی زیادتی کا مطلب وزن بڑھنا ہے۔ بغیر حل پذیر ریشے دار نہ ہضم ہونے والی پروٹین سے بال بنتے ہیں۔ گھنگھریالے طرز کے یہ پروٹین کرائینٹین (crintein)کہلاتے ہیں۔ اسی سے جسم کے سخت حصوں کی تعمیر ہوتی ہے جس میں ناخن بھی شامل ہیں۔
کیلی فورنیا میں ہونے والی ایک تحقیق میں تنقید کی گئی کہ ہرڈ امیونٹی سے متعلق نتائج علاقوں اورآبادیوں کے لحاظ سے یکساںہیں۔ سیرولوجی سروے میں پورے معاشرے نہیں بلکہ ایک محدود حصے کا مطالعہ کیاجاتا ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر کارل برگ سٹورم (Carl Bergstrom) کا بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ تحقیق درست نہیں مانی جاسکتی کیونکہ اس سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ ہرڈ امیونٹی کے اصول کو لاگو کریں گے تو آبادی کا کتنا بڑا حصہ اس کا شکار ہوگا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ جگہ اور علاقے کے لحاظ سے قوت مدافعت کی حد بھی مختلف ہو کیونکہ اس میں آبادی، سماجی میل میلاپ دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
اس دعوے کا بھی کوئی سرپیر فی الحال موجود نہیں کہ ہرڈ امیونٹی کو اپنایا تو وائرس کا نشانہ بننے والے لوگ دوبارہ اس کا شکار نہیں ہوں گے؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ لوگوں پر اس کے اثرات ایک ہی طرح سے ہوں گے یا نہیں؟ کیا ہر فرد کے اندر قوت مدافعت بڑھ سکتی ہے؟ اس کا اثر یا دورانیہ کتنا پائیدار ہوتا ہے؟ جان ہاپکنز یورنیورسٹی کے وبائی امراض کے پروفیسر جیپسیمبر ڈیسوزا (Gypsyamber D'Souza ) کے تجزیہ میں اجتماعی قوت مدافعت کے اصول کو اپنا بھی لیاجائے تب بھی کچھ لوگ ضرور بیمار ہوں گے۔
ہرڈ امیونٹی چیچک اور خسرہ کے امراض پر قابو پانے کیلئے مثال کے طورپر دی جارہی ہے۔ بچوں میں یہ عام امراض ویکیسین کی مدد سے اجتماعی قوت مدافعت بڑھنے سے امریکہ میں اب تقریبا ختم ہو چکے ہیں۔ لیکن اس مثال میں اہم نکتہ یہ ہے کہ خسرہ یا چیچک کے امراض کی ہرڈ امیونٹی‘ اس وقت ممکن ہوئی جب ویکسین دستیاب ہوئی۔ کورونا کی ویکسین یا دوا اب تک آئی نہیں۔ اس سے پہلے ہرڈ امیونٹی پر عمل کرنا موت کو اجتماعی دعوت دینے والی بات ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر نتالی ڈین نے اس خطرے کا اظہار کرتے ہوئے نیویارک کی مثال دی اور سوال پوچھا کہ کیا ہم اسی طرح کی قیامت صغری پھر سے دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ جوان لوگوں پر ہرڈ امیونٹی کا اطلاق بھی عملی دکھائی نہیں دیتا۔ لاہور میں ڈاکٹرز فیملی کے 24 سالہ میڈیکل سٹوڈنٹ بیٹے کا ساتھ جوواقعہ ہوا، اس کے بعد تو کوئی نوجوانوں پر بھی اس کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے صحت عامہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈریو نوئیمر کا بھی اتفاق ہے کہ کورونا کے معاملے میں ہم اس طرح کا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے کیونکہ یہ کوئی معمولی نزلہ زکام تو ہے نہیں کہ اگر تین کروڑ لوگوں کو بھی ہوجائے تو کوئی بات نہیں۔ خدانخواستہ تین کروڑ کو کورونا ہوجائے تو معاملہ سنگین ہے۔
ہرڈ امیونٹی کے حامی خسرہ کی مثال دیتے ہیں جو بہت تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ ان کے مطابق کورونا کا پھیلاو خسرہ سے نسبتا کم ہے۔ خسرہ پر قابو پانے کے لئے 90 فیصد آبادی کا متاثر ہونا لازم تھا لیکن کورونا پر قابو پانے کے لئے صرف 60 فیصد آبادی متاثرکرنا ہوگی۔ اس ضمن میں برطانیہ کی مثال دی گئی ہے جہاں 40 ملین یا چا رکروڑ لوگ کورونا سے متاثر ہیں۔ 32 ملین یا تین کروڑ بیس لاکھ یعنی 80 فیصد لوگوں میں کورونا کی معمولی علامات ہیں۔ ماہرین کا ابھی اس پر بھی اتفاق نہیں کہ کورونا کے معاملے میں 60 سے 80 فیصد لوگ متاثر ہونے کے باوجود واقعی وائرس پر قابو پالیں گے یا نہیں؟ (ختم شد)

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن