سیاسی قُلی اور اٹیمی دھماکے

28 مئی جسے یوم تکبیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے موقع پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے حسبِ روایت دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ 1998ء ایٹمی دھماکے ان کی ، راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب کی وجہ سے ممکن ہوئے۔ شیخ رشید قبیل کے تمام لوگوں نے نہ جانے ایٹم بم کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟ شیخ رشید کے اس دعوے کی راجہ ظفر الحق نے تردید کردی ہے اور گوہر ایوب کی کتاب ‘‘ایوان اقتدار کے مشاہدات‘‘ میں 1998ء کے جوہری تجربات کے عنوان سے دس صفحات کا پورا باب موجود ہے، گو کہ انہوں نے بھی ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ہے لیکن اس حوالے سے شیخ رشید کا ذکر پورے باب میں کہیں موجود نہیں ہے۔ شیخ رشید کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی وہ ویڈیوز بھی وائرل ہورہی ہیں جس میں ایٹمی دھماکوں کو نواز شریف کا مرہون منت قرار دے رہے ہیں اوریہ اعتراف کررہے ہیں کہ میں ایٹمی تجربات سے قبل ڈر کر ملک سے باہر چلا گیا تھا اور کامیاب تجربات کے بعد وطن واپس آیا۔دیانت،سچائی، شرافت، شائستگی کا متضاد دیکھنا ہو تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے شیخ رشید کی ذات میں خصوصی اور سیاستدانوں کی اکثریت میں عمومی طورپر یہ تمام ’’خصوصیات‘‘ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ موصوف کا تمام سیاسی کیرئیر مخالفین کی عزت پر گند اچھالنے کے عمل سے عبارت رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جناب ہرماہ دو ماہ بعد ہاتھ میں سگار پکڑے آنکھیں فضا میں گھماتے اور منہ سے سگار کا دھواں نکالتے ہوئے کوئی نہ کوئی پیش گوئی اور دعویٰ بھی داغ دیتے ہیں اور سگار کے دھوئیں سے فضا اور اپنی درفطنی سے سیاسی ماحول کو پراگندہ کردیتے ہیں۔ نواز شریف، چوہدری برادرن، پرویز مشرف کے بعد اب عمران خان ان کا انتخاب ہیں۔ پرویز مشرف کے خاتمے کے بعد جنابِ شیخ کی حالت ایک پنجابی گانے کے بول ’’میں کیھڑے پاسے جاواں میںمنجی کتھے ڈہواں ‘‘ کے مصداق رہی ۔ بہرحال سیاسی بندوبست کرنے والوں کو ان کی حالت پر رحم آہی گیا اور عمران خان کے اسی تانگے میں انھیںسوار کروادیا جسے ایک دہائی قبل وہ حقارت سے دیکھا کرتے تھے۔ڈھٹائی جسے موصوف استقامت کہتے ہیں ، کا عالم یہ ہے کہ ٹرین کے متعدد حادثات ہوئے جس میں بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا لیکن کیا مجال کہ جناب کے چہرے میں پشیمانی اور شرمندگی کی کوئی جھلک بھی دکھائی دی ہو۔ موقع پرست اتنے کہ ہر وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ مشہوری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے ۔ جھوٹ ، بہتان تراشی، جھوٹی پیشین گوئیاں اور گفتگو میں بازاری جملے اور جگتیں ان کا خاصہ ہیں۔ بولنا مُکرنا اور پھر بولنا اور پھر مُکرنا ان کی بنیادی صفت ہے۔ سیاست ان کی شناخت ہے ، مگر ان کے نزدیک نظریات کی بجائے بار برداری اور کاسہ لیسی کا نام ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی یہ وابستہ رہے وہاں ان کی حیثیت مشیر کی بجائے رابطہ کار سے زیادہ کی نہیں رہی۔ ان کا گمان اور خوش فہمی ہے کہ لوگ انھیں بہت سنتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں سن کر سنجیدہ طبقہ کڑھتا ہے اور عامی محظوظ ہوتے ہیں۔ جب یہ افراد کسی ٹی وی چینل پر بیٹھے گفت گو کررہے ہوتے ہیں تو انھیں سننے والوں کو راقم نے صلواتیںسناتے بھی دیکھا ہے۔ لیکن اپنی ریٹنگ کے حددرجہ جنون میں مبتلا بعض چینلزکے لیے بھی ایسے افراد کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ سیاست ان کے نزدیک کسی نوٹنکی سے کم نہیں ہے۔ مخالفین کی عزت کا جنازہ نکالنا اور جلسے کو گرمانا جیسے فرائض ان کے ذمے رہے ہیں۔ جن کا خاطر خواہ معاوضہ بھی وزارتوں کی شکل میں ادا کیا جاتا رہا ۔ یوم تکبیر جسے پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے موجودہ حکومت نے اسے ایسے نظر اندازکیا جیسے یہ عزم و ہمت کی بجائے خدانخواستہ شرمساری کا کوئی واقعہ ہو، جب کہ مودی کے یار کا الزام نواز شریف پر دھر ا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل دو سابق بیوروکریٹس نے بھی اس اس الزام کی سُرمیں اپنی بھی تال ملائی کہ شاید نئی حکومت میں کوئی نئی نوکری مل جائے۔ پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ ایٹم بم کی تیاری کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور بعد میں آنے والی ہر حکومت نے اپنے اپنے طور پر اس عظیم منصوبے کو جاری رکھا اور غلام اسحٰق خان مرحوم کا بھی اس سارے عمل میں غیر معمولی کردار رہا ہے۔ سیاسی مخالفت میں ہم یہ بات بھول فراموش کردیتے ہیں کہ قومی فیصلے اجتماعی دانش کے نتیجے میں کیے جاتے ہیں، فردِ واحد کا کردار اتنا ہی ہے کہ دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔ اجتماعی دانش کے نتیجے میں جو بھی فیصلہ ہو اس کے مثبت اور منفی نتائج کی ذمہ داری قیادت کے کاندھوں پر آتی ہے۔اسی طرح ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح بھی انھی کے حصے میں آتے ہیں جو اس وقت قیادت کے منصب پر براجمان ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی تاریخ میںیہ ضرور باقی رہتا ہے کہ فیصلوں اور منصوبوں کا پہلا محرک کون تھا۔ آج اگر پشاور بی آرٹی تحریک ِ انصاف کے ’’ماتھے کا جھومر‘‘ ہے تو موٹرویز مسلم لیگ نواز کے اعمال نامے میں درج ہیں۔ سی پیک زرداری صاحب کی فکر ہے تو اس کی عملی تعبیر پ ایم ایل این کے تیسرے دور میں دیکھنے میں آئی ۔ اسی طرح ایٹمی پروگرام کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور پایہء تکمیل نواز شریف کے دوسرے
دور میں پہنچا۔ نہ جانے سیاسی مخالفت اور حمایت میں تاریخ کو مسخ کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا ,,جانے نا جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے،،

ای پیپر دی نیشن