بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی فوج اور انتہا پسند ہندوئوں کے مظالم، پاکستان میں کرونا وائرس کا اَن دیکھا عذاب اور پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے کے کراچی میں حادثے سے اس عیدالفطر پر سوگوار فضا کے بادل چھائے رہے، تاہم پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دفاع وطن کیلئے کنٹرول لائن پر دشمن کے سامنے سینہ تانے پاک فوج کے شیردل جوانوں کے ساتھ عید منانے کی اپنی ولولہ انگیز روایت برقرار رکھی۔ ان جوانوں کی حوصلہ افزائی صرف آرمی چیف کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ پوری قوم پر قرض بھی ہے، جب پاکستان کے عوام اپنی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کے احساس کے ساتھ گھروں میں سکون کی نیند سو رہے ہوتے ہیں، اس احساس کو تقویت دینے کیلئے پاک فوج کے جوان دشمن کے سامنے اپنے سینوں کو ڈھال بناتے سرحدوں پر جاگ رہے ہوتے ہیں جبکہ میلوں دور ان کے بیوی بچے اس خوشیوں بھرے دن جدائی کے کرب سے گزار رہے ہوتے ہیں لیکن یہ خیال ان کی تقویت کا باعث بنتا ہے کہ یہ جدائی ایک مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے ہے۔ کنٹرول لائن پرجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو دوٹوک جواب دیا کہ پاک فوج ہر خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہے، ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ کشمیر کے عوام 5 اگست 2019ء سے غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں، کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کی گئی تو اس کو ناکام بنا دیا جائے گا اور تمام تر مصائب کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ضرور کامیاب ہو گی۔
امریکہ نے چین کو حصارمیں لینے کیلئے ایشیا پیسفک کا نام انڈیا پیسفک رکھ کر بھارت کو اس کے مقابلے کیلئے تیار کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بٹیر کواصیل مرغ سے لڑائی کیلئے تیار کیا جائے۔
گزشتہ دنوں بھارتی فوجیوں نے لداخ کے علاقے میں کنٹرول لائن کو عبور کیا لیکن یہاں پہلے سے مستعد چینی فوجیوں نے انہیں نہ صرف گرفتار کر لیا بلکہ پھینٹی لگا کر واپس بھی بھیج دیا۔ پاکستان نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر کے واپس بھارت کے سپرد کر دیا تھا ۔کروناکے باعث پاکستان میں بھی مساجد کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں مگر الحمد اللہ کوئی مسجد ویران نہیں ہوئی جبکہ بھارت میں بہت سی مساجد اس شعر کی عملی تصویر بنی ہیں
’’مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے‘‘
ان میں علائو الدین خلجی کی تعمیر کردہ مسجد بھی ہے، خلجی نے الٰہ آبادسے تین میل کے فاصلے پرکڑا کو صوبہ قرار دیا تو یہاں یہ مسجد بھی تعمیر کرائی۔ اکبر بادشاہ نے اسے توسیع دی، جس میں ایک لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے مگر اس عیدالفطر کو یہ مسجد نمازیوں کی راہ دیکھتی رہی، پولیس نے جسے حصار میں لے رکھا تھا۔ واضح رہے 1857ء کی جنگ آزادی اور 1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت بھی اس میں نمازوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ بھارت کے شہر اوکھلا میں اس و قت شاہین باغ کا منظر قائم ہوگیا جب عید سے 2 روز قبل پولیس ڈاکٹر ظفرالاسلام کو سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کے ’’جرم‘‘ میں بلاوارنٹ گرفتار کرنے آئی تو مقامی مسلمان لیڈر امانت اللہ خان ان کے دروازے پر ڈٹ گئے اور پولیس سے وارنٹ کا مطالبہ کیا۔ یہ اطلاع پا کر علاقے کے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے، حتیٰ کہ افطار کا وقت آگیا تو محلے کی خواتین نے افطار کیلئے کھجوریں اور کیلے بھجوا دیئے اور افطار کے بعد اس مزاحمتی اجتماع کا حصہ بن گئیں، جس پر پولیس کو ناکام واپس جانا پڑا۔ اسی طرح کرونا پھیلانے کے الزام میں بھوپال کی مسجد زینب کے امام اور 28نمازیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ہندوئوںکے عمومی رویوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی ریاست بیجاپور پر قبضہ کیلئے ہندو راجہ شیوا جی نے قبضہ کا مقدمہ بنایا۔ بیجاپور کے حکمران عادل شاہ نے اپنے جرنیل افضل خان کو 10ہزار کا لشکر دے کر اس کی سرکوبی کیلئے بھیجا، شیواجی لشکر اور ہتھیار دیکھ کر ڈر گیا اورصلح کا پیغام بھجوایا۔ افضل خان نے اسلامی روایات کے مطابق اسے اپنے خیمے میں بلا لیا، شیواجی نے عیاری سے گلے ملتے ہوئے ’’بچھوا‘‘ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور پھر بغل میں چھپایا ہوا خنجر نکال کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ’’بچھوا‘‘ شیر کے پنجے جیسا ہتھیار ہے۔ یہ واقعہ 1659ء کا ہے۔ آج بھی شیوا جی ہندوئوں کا ہیرو ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو شیوا جی سے بال ٹھاکرے، امیت شاہ اور نریندر مودی تک مسلمانوں کے ساتھ عیاری مکاری کے حربے اختیار کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے گائورکھشا کے نام پر جھاڑکھنڈ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ یہ سلسلہ نیا نہیں، صدیوں پرانا ہے۔