ایک اخبار کی سُرخی ہے پھاٹک پر ٹرین نے کار کو روند ڈالا۔ سُرخی سے فوری طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ بے چاری کار (مع سواریوں کے) بڑے آرام سے جا رہی تھی کہ ٹرین ٹریک پر سے اُتر کر اُس پر جھپٹ پڑی اور کار کو کچل کر دوبارہ ٹریک پر آ گئی، یوں ایک ہی خاندان کی 2 خواتین سمیت 4 افراد کی جان لے لی۔ ایسی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں، کبھی موٹر سائیکل سوار میاں بیوی اور پٹرول کی ٹینکی پر بیٹھے 2 بچوں کو روند ڈالا اور کبھی پھاٹک کے عین درمیان میں پھسے ٹریکٹر ٹرالی کو ٹکر مار دی چونکہ ’’شکار‘‘ بھاری بھرکم تھا لہٰذا ٹرین کو اس کی قربانی اس صورت میں دینا پڑی کہ انجن اور 2 بوگیاں ٹریک سے اُتر گئیں، کئی مسافر زخمی ہوئے ، ریلوے لائن کلیئر ہونے تک دونوں طرف سے گاڑیوں کی آمدورفت گھنٹوں رکی رہی۔ ایک اور خبر دیکھئے ، عید پر سیر کیلئے دریا کا رُخ ، 3بہنوں سمیت 12 افراد ڈوب گئے ۔ ڈوب کر ہلاک ہونے کی خبریں بھی نہایت کثرت سے آتی ہیں۔ ان واقعات میں بھی دریا اور نہروںنے اپنے بہائو کامقام نہیں چھوڑا ہوتا بلکہ ڈوبنے والے خود چل کر گئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ نہر کنارے جاتی وین نہر میں گر گئی ، تعزیت کیلئے جانے والے 11افراد ڈوب گئے ، لاشوں کی تلاش میں 2 دن لگ گئے ، اس مقصد کیلئے نہر بند کرنا پڑی یا کئی لوگ سڑک پار کرتے ہوئے تیز رفتار کار کے نیچے آ کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کئی بے گناہ پتنگ کی دھاتی تار پھرنے سے گردن کٹوا بیٹھتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے مختلف واقعات میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور اس کی صرف ایک ہی وجہ ہوتی ہے اور وہ ہے بے احتیاطی۔ریلوے پھاٹک پر اگر کوئی چوکیدار متعین نہیں تو کیا آنے جانے والوں کا فرض نہیں کہ وہ بھی پھاٹک سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھ لیا کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ ٹرین تو نہیں آرہی؟ اگر آ رہی ہو تو رک جائیں۔ ہم شرط لگانے کو تیار ہیں کہ اگر اس احتیاط کے ساتھ ریلوے لائن پار کی جائے تو کبھی حادثہ نہ ہو۔ ریل گاڑی مقررہ راستے پر چل رہی ہوتی ہے۔ یہ تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ ٹرین ٹریک سے اتر کر کسی پر چڑھ دوڑے اور یہ توقع اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ ٹرین پھاٹک پر آ کر رک جائے اور انجن کا ڈرائیور دونوں طرف دیکھ کر پھاٹک سے گزرے لیکن ایسا کوئی سانحہ ہو جائے‘ ہم ریلوے کو کوسنے دینے لگ جاتے ہیں کہ اس پھاٹک پر چوکیدار کیوں نہیں متعین کیا کہ جو ریل کے آنے کے وقت پھاٹک بند کر دیا کرے۔ معاملہ صبر اور احتیاط کا ہے، پھاٹک پر چوکیدار کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔ موٹرسائیکل اور کار سوار کو پھاٹک پار کرنے میں ایک یا دو سیکنڈ اور پیدل کو زیادہ سے زیادہ تین یا چار سیکنڈ لگتے ہیں مگر بے صبری میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
یہی معاملہ سمندر‘ نہر‘ دریا اور جوہڑ کا ہے، بغیر یہ جانے کہ گہرائی کتنی ہے‘ ہمارا قد کتنا ہے اور ہمیں تیرنا بھی آتا ہے یا نہیں۔ بس پانی دیکھا پھر آئو دیکھا نہ تائو‘ کپڑوں سمیت کود جاتے ہیں۔ بس آتش نمرود کا منظر یاد آجاتا ہے۔ سمندر اور دریائوں کی گہرائی تو سینکڑوںفٹ بھی ہوسکتی ہے۔ بعض نہریں بھی مثلاً نہر لوئر چناب، نہر اپر چناب اور قادر آباد بلوکی رابطہ نہر اتنی گہری ہیں کہ جسے تیرنا نہ آتا ہو اسے نہانے کا رسک نہیں لینا چاہئے۔ مذکورہ نہریں اپنے اندر دریائوں کا پانی سمیٹے ہوئے ہیں۔ قادر آباد بلوکی نہر 300فٹ چوڑی اور آدمی کے قد سے دوگنا گہری اور 17000کیوسک فٹ پانی لیکر بہہ رہی ہے، اتنی گہری نہروںمیں اندھا دھند چھلانگ لگانا موت کے منہ میں کود جانے کے مترادف ہے۔ جس ملک میں گاڑی کا ڈرائیور حد رفتار کی پابندی سے بے نیاز ہو اور جس ملک میں پیدل چلنے والا اتنا لاپرواہ ہو کہ سڑک پار کرنے کیلئے دائیں بائیں دیکھنے کو عار سمجھے وہاں ٹریفک حادثات پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ جب سے یار لوگ گدھوں، خچروں اور ٹٹوئوں سے اتر کر گاڑیوں کے سٹیرنگ پر آن بیٹھے ہیں، حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دراصل وہ ابھی تک ذہنی طور پر وہیں ہیں جہاں آج سے 20 سے 60 سال پہلے تھے۔ سڑک حادثات میں گاڑی چلانے والا سڑک پار کرنے والے سے زیادہ قصوروار ہے۔ رہ گئے وہ حادثات جو گاڑیوں کے نہروں میں گرنے سے ہوتے ہیں تو اس میں قصوروار محکمہ انہار اور گاڑی چلانے والا دونوں ہیں۔ انگریزوں کے جانے کے بعد نہروں کی دیکھ بھال سے غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہر کے کناروںمیں جگہ جگہ کٹائو آگئے ہیں یا گڑھے بن گئے ہیں اگرچہ اب بیشتر نہروں کے ایک کنارے پر پکی سڑک بنا دی گئی ہے لیکن کٹائو اور گڑھے پر کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ سڑک پر نہر کے ساتھ ساتھ چلنے والی ٹریفک کا ہو یا موٹرسائیکل یا ٹریکٹر ٹرالی مسلسل خطرے میں رہتے ہیں۔