غضنفر علی شاہی …عجب مرد درویش انسان تھا

14پریل 1987؁ء کو لاہور سے ملتان منتقلی کے بعد میں ہائیکورٹ بار ملتان کا رکن بنا اور ہائیکورٹ ملتان بینچ میں وکالت شروع کر دی ۔اس دوران میری ملاقات نوائے وقت ملتان کے عدالتی رپورٹر غضنفر علی شاہی سے ہوئی ، اور انہوں نے میرے ساتھ چائے پی یوں  پہلی ملاقات کے بعد ہی ہمارا رابطہ بڑھا اور ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہوگئے۔ میری اہلیہ کی بینائی اور یادداشت ختم ہوئی تو انھوںنے اُن کے علاج کیلئے پورا تعاون کیا۔ اُن کے مشورہ پرڈاکٹر واجد برکی آئی سپیشلسٹ سے علاج بھی کرایا ۔اُنھو ں نے مجھے سی ٹی سکین کرانے کا مشورہ دیا اُن دنوں پرائیویٹ میڈیکل سنٹرز میں سی ٹی سکین کی فیس 5 ہزار روپے تھی انھوں نے اپنے اثر و رسوخ سے نشتر ہسپتال میں فری سی ٹی سکین کرایا ۔وہ نوائے وقت ملتان کے رپورٹر تھے لیکن اُن کا سماجی رابطہ بہت وسیع تھا ۔میں نے اُنھیں مخلص اور رحمدل انسا ن پایا۔ انہوں نے اپنے سماجی تعلقات کو اپنے دوستوں اور صحافیوں کے ذاتی مسائل کیلئے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1996ء سے 1999ء تک اور پھر2002ء میں پریس کلب کے صدر بنے۔ کہنہ مشق صحافی مسیح اللہ جامپوری کا نوجوان بیٹا جو نشتر میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کا طالب علم تھا ، قتل ہوا تو شاہی صاحب نے اُن کی پوری مدد کی تفتیش سے لیکر ٹرائل تک وہ اُن کے ساتھ کھڑے رہے ۔ ہائر سیکنڈری سکول گلگشت کالونی کی پرنسپل نے میری بیٹی کو داخلہ دینے سے انکار کیا تو شاہی صاحب کو بہت صدمہ پہنچا اسی پرنسپل کو بطور تقرری اور اینٹی کرپشن کے محکمہ کی غیر قانونی کارروائی کے بارے میں شاہی صاحب نے میرے ذریعہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔شاہی صاحب نے پرنسپل صاحبہ کو فون کر کے انہیں احساس دلایا کہ کنور صاحب کے احسانات کو آپ نے بھلا دیا ہے چنانچہ اگلے ہی روز پرنسپل صاحبہ نے مجھے فون کیا اور بیٹی کو داخل کر لیا ۔
شاہی صاحب کا گھرانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا ۔ اُن کے والد چودھری بشیر احمد محکمہ انہار میں ملازم تھے جبکہ چچا اور سسر پروفیسر فیض احمد شمس پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈین تھے ۔ خود شاہی صاحب نے گورنمنٹ بوائز سکول ڈیرہ غازی خان سے میٹر ک کیا۔ 1968ء میں بی اے اور 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ طویل عرصے تک روزنامہ نوائے وقت میں سٹاف رپورٹر رہے ۔وہ بے جا خوشامد کو ناپسند کرتے تھے ۔ کم گو مزاج کے حامل تھے ادارے کیلئے سچی خبروں کی تلاش میں رہتے تھے اس لئے معاشرے کے قانون شکن لوگ اُن کو ناپسند کرتے تھے۔ اُن کے جونیررپورٹرز ایڈیٹرز بنے۔
روزنامہ ایکسپریس نے ملتان سے اپنی اشاعت کا آغاز کی تو وہ روزنامہ ایکسپریس ملتان میں چیف رپورٹر بن گئے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ کے غلط استعمال کے بارے میں انھوں نے ایک سچی خبر چلائی تو یہ سچائی اُن کو بہت مہنگی پڑی پہلے اُن پر تردید اور معذرت کیلئے دبائو پڑا انہوں نے انکار کر دیا ، آخر کار با اثر شخص نے ادارے کے مالکان پر دبائو ڈال کر اُن کا تبادلہ ایکسپریس بیورو آفس کوئٹہ کرادیا ۔اُنھوں نے اس بارے میں مجھ سے مشورہ کیا میں نے اُن کو عدالتی چکروں سے بچنے کا مشورہ دیا وہ کوئٹہ گئے تو معلوم ہوا کہ آفس بند پڑا ہے صرف ایک نائب قاصد خبریں بھیجتا ہے وہ واپس ملتان آگئے وہ سینئر اور منجھے ہوئے صحافی تھے۔ ایکسپریس کو خیرباد کہہ کر روزنامہ پاکستان میں چیف رپورٹر بن گئے پھر اس منصب کو چھوڑ کر اے پی پی جوائن کر لیا ۔انھوں نے اپنی اولاد کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ اُن کے تین بیٹے ہیں جن میں سے بڑا بیٹا عمار غضنفر حبیب بنک لمیٹڈ میں ٹریڈ اینڈ فنانس منیجر ہے جبکہ دوسرا بیٹا جواد غضنفر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں سپرنٹنڈنٹ ہے ۔اور سب سے چھوٹا بیٹا حماد غضنفر کا اپنا ذاتی کاروبار ہے ۔ 
شاہی صاحب اپنی ذمہ داریوں سے ابتدا ہی میں سبکدوش ہو گئے تینوں کی شادی کی سگریٹ نوشی اُن کی کمزوری تھی۔میں نے بطور دوست کئی بار سگریٹ نوشی کو ترک کرنے کا کا مشورہ دیا لیکن وہ نہ چھوڑ سکے سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوئے اور نشتر ہسپتال داخل ہوئے میں اُن کی تیماداری کیلئے ہسپتال گیا وہ ہشاش بشاش تھے ۔میں نے اُن سے مذاق میں کہا تم نے اپنی اولاد کو اپنی بیماری کے بارے میں کیوں بیوقوف بنایا ہوا ہے وہ صحتیاب ہوئے اُن کے بیٹے اُنھیں گھر لے آئے مگر 25 مارچ 2022ء کو اس جہان فانی کو چھوڑ کر اگلے جہان چلے گئے یہ عجب مرد درویش انسان تھا ۔وہ اپنی والدہ مرحومہ کے پہلو میں شارکنِ عالم ای بلاک کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن